تن درستی ہزار نعمت ہے
ڈاکٹر سید اکرام
کبھی کبھی یہ دل چاہتا ہے کہ آج بیماری کی کوئی بات نہ کی جائے۔ ایک لمحے کو، سکون کے ساتھ، تنہائی میں، خاموشی سے ہم اس نعمت کا شکر ادا کریں جسے صحت کہتے ہیں۔ بلکہ ایک نعمت کہاں۔ کہتے ہیں تن درستی ہزار نعمت ہے۔ جان ہے تو جہان ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اس کی نعمتوں کا شمار کر سکتے ہیں۔ کیا شکر کرنے کا حق ادا کر سکتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ کم از کم اعتراف تو کر سکتے ہیں، شکر کی کوشش تو کر سکتے ہیں، نیت تو کر سکتے ہیں۔ یاد رکھیں، ہمارا بنانے والا، ہمارا خالق و ما لک ہم سے نتیجہ نہیں مانگتا لیکن وہ ہماری کوشش، ہماری نیت ضرور دیکھتا ہے۔ ہم رزلٹ کے ذمہ دار نہیں، لیکن ہم سے ہماری نیت اور کوشش کاسوال یقیناً ً ہو گا۔ آئیے آج عہد کریں کہ اپنے ہاتھوں سے لقمہ بنا کر، نوالہ بنا کر اپنے منہ میں لے جانے سے پہلے اس خالق کا، مالک کا، پروردگار کا، خدائے بزرگ و برتر کا شکر ادا کریں گے جس نے ہمارے ہاتھوں کو، اس کی انگلیوں کواس قابل بنایا کہ وہ نوالہ بنا سکیں، اسے پکڑ سکیں اور اسے منہ تک لے جا سکیں۔
ہمارے منہ کو اس قابل بنایا کہ یہ پورا کھل سکے، ہم نوالے کو چبا سکیں، اسے نگل سکیں، پانی پی سکیں۔
ہمیں اکثر کڑوی کسیلی دوائیں اچھی نہیں لگتیں، لیکن اگر ہم کینسر کے مریضوں کی ہونے والی کیمو تھراپی اور اس کے سائیڈ افیکٹس کا سوچ لیں تو پھر ہمیں یقیناً عام دوائیں کھا تے ہوئے شکایت نہیں بلکہ شکر کرنا ہو گا۔
زمین سے جھک کر ایک چھوٹے سے سکے کو اٹھانے کی قدر و قیمت اس ہاتھ سے پوچھیں جو مفلوج ہو چکا ہو، حرکت کے قابل نہ ہو۔
سونگھنا کتنی بڑی نعمت ہے، اس کا پتہ ناک بند ہونے کے بعد معلوم ہوتا ہے۔
خوشبو بتا رہی ہے کہ وہ راستے میں ہے
موج ہوا کے ہاتھ میں، اس کا سراغ ہے
اسی طرح، سننا، زندگی کی کتنی بڑی نعمت ہے، اس کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب کان لفظوں کے معنی کیا، پرندوں کی چہچہاہٹ سے بھی نا آشنا ہوں۔
بولنا، قوت گویائی کتنی بڑی طاقت ہے، اس کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے، جب سننے والے تو موجود ہوں، اپنے پاس الفاظ بھی موجود ہوں مگر اپنے دل کی بات دوسروں تک کہنے کی قوت نہ ہو۔
اور سب سے بڑھ کرہوش۔ اگر ہم ہم کوما میں نہیں، بے ہوش نہیں، ہمیں وقت معلوم ہے، اپنے ارد گرد موجود لوگوں اور اپنے گرد و پیش سے باخبر ہیں تو یقین کیجئے، یہ ہوش بھی بہت بڑی نعمت ہے۔
اگر ہمیں رفع حاجت کے لئے نلکی کی ضرورت نہیں پڑتی اور خدا نے ہمیں اپنے پیروں پر چل کر واش روم جانے کے قابل بنایا ہے تو یہ بھی مقام شکر ہے۔
اگر ہم پتھروں کو صرف گلیوں اور سڑکوں پر ہی پڑا دیکھتے ہیں اور یہ اسٹونز ہمارے گردوں اور پتے میں موجود نہیں تو یہ بھی ایک نعمت ہے۔
نیند جیسی نعمت کی اہمیت اس بے خوابی کا شکار شہرت یافتہ فنکار سے پوچھیں جس کے پاس کروڑوں ڈالرز ہوں، ہزاروں کی بیش قیمت پھولوں کی سیج ہومگر وہ نیند میسر نہ ہو جو روزانہ تین سو روپے کی دیہاڑی لگانے والے مزدور کو سخت زمین کے ننگے فرش پر آجاتی ہے۔
ہم سانس لے رہے ہیں، ہمارے پھیپھڑے اس قابل ہیں کہ ہم آکسیجن کے بغیر، وینٹی لیٹر کے بغیرسانس لے سکیں۔ یہ سانس لینا بھی، اس سانس کا احساس بھی ایک نعمت ہے۔
کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جن کو خوراک ا س وقت بھی ناک کے ذریعے، پیٹ میں سوراخ کر کے، یا خون میں ڈرپ کے ذریعے دی جا رہی ہے۔ ان کے پاس گھر، گاڑی، پیسہ، سب کچھ موجود ہے لیکن صحت نہیں۔ جانتے ہیں کیوں؟ کیونکہ یاد رکھیئے ہم پیسے سے دوا خرید سکتے ہیں، علاج کروا سکتے ہیں، بہترین اور مہنگے ترین ہسپتال جا سکتے ہیں، لیکن صحت نہیں پا سکتے۔ کیونکہ صحت دینے والا تو وہ ہے جس کا شکر ادا کیا جاتا ہے۔
یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان نعمتوں میں سے کسی کا نہ ہونا بری چیز نہیں۔ ہم سب بیمار ہوتے ہیں۔ کبھی کم بیمار اور کبھی زیادہ بیمار۔ بیماری تو خود اکثر گناہوں کے دھل جانے کا ذریعہ ہوا کرتی ہے۔ بلکہ اکثر، صحت اور دوسری نعمتوں سے محرومی ہماری آزمائش کا ذریعہ ہوتی ہے۔ یہ دیکھا جاتا ہے کہ کیا ہم ایک نعمت کے نہ ہونے پر صبر کرنے کے بجائے رونا دھونا اور شکوہ شکایت شروع کر دیتے ہیں یا پھر باقی وہ ہزاروں نعمتیں جن سے ہمیں نوازا گیا ہوتا ہے ان پر شکر ادا کرتے ہیں۔ اسی لئے تو کہا جاتا ہے۔ مصیبت کا مقابلہ صبر سے کرو۔ اور نعمت کی حفاظت شکر سے۔
حقیقت میں نا شکری انسان کی روح کو دیمک کی طرح چاٹ لینے والی عادت ہے۔ پھر یہ عادت دوسری زہریلی کیفیات کو جنم دیتی ہے جیسے بے یقینی، احساس کم تری، مایوسی اور بے ایمانی۔ اسی لئے تو مایوسی کو کفر کہا گیا ہے۔ سو نا شکری وہ بلا ہے جو نعمتوں کو کھا جاتی ہے۔
تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب سانس بھی نعمت ہے، رزق بھی نعمت ہے، نیند بھی نعمت ہے، سننا، بولنا، دیکھنا، چلنا، پھرنا، کھانا اور پینا بھی نعمت ہے، تکلیف اور درد کا نہ ہونا بھی نعمت ہے، ہمارے جسم کا ایک ایک عضو بھی نعمت ہے۔ غرض یہ کہ جسم کا درست ہونا بھی نعمت ہے بلکہ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ تن درستی ایک نہیں ہزار نعمت ہے توپھر ان بیش بہا نعمتوں کی حفاظت کیسے کی جائے۔
اس سوال کا جواب ہمیں ایک حدیث میں بہت خوب ملتا ہے۔
ارشاد ہوتا ہے اپنی نعمتوں کی حفاظت ان کا شکر ادا کر کے کرو۔ یعنی جب ہم کسی نعمت کا شکر ادا نہیں کرتے تو کفران نعمت کرتے ہیں۔ اسی طرح جب ہم ایک نعمت کے چھن جانے یا اس سے محروم رکھے جانے پر تو شکوہ اور شکایت کرتے ہیں مگر ان ہزاروں نعمتوں پر سجدہ شکر نہیں ادا کرتے جو ہمیں میسر ہوتی ہیں تو یہ بھی کفران نعمت ہے۔ ہمارا پالنے والا تو خود اپنی کتاب پاک میں کہہ رہا ہے
”اگر تم شکر کرو گے تو میں تمھیں اور زیادہ دوں گا۔“
نعمتوں کا شکر کیسے ادا ہو سکتا ہے۔ اس کے لئے سب سے پہلے تو ضروری ہے کہ ہم اس نعمت کا احساس کریں، اس نعمت کو پہچانیں، مثال کے طور پر ہمیں اس بات کی آگاہی ہو کہ کھلی فضا میں سانس لینا بھی نعمت ہے۔ خواب آوار دواؤں کے بغیر سکون کی نیندسو جانا بھی نعمت ہے۔ اپنے ہاتھ سے لقمہ بنا کر کھالینا بھی نعمت ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ اگر سچ پوچھیں تو ہم ان نعمتوں کا شمار ہی نہیں کر سکتے لیکن جن کا کر سکتے ہیں، کم از کم ان کا تو کریں۔ اگر تب بھی شکر کی کوئی وجہ نہ مل رہی ہو تو صرف اپنی نبض پر ہاتھ رکھ لیں، اپنی دھڑکن محسوس کریں۔ یہ دھڑکن بھی نعمت ہے، جب تک چل رہی ہے۔ دم میں دم ہے۔
دوسرا مرحلہ ہے زبان سے شکر ادا کرنا، ہر وقت بیٹھتے، اٹھتے، لیٹتے، کھاتے پیتے وقت شکر ادا کرنا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارے خالق و مالک کو ہمارے شکر کی ضرورت ہے۔ خدا تو بے نیاز ہے۔ کسی کا محتاج نہیں۔ لیکن یہ ہمارا اخلاقی فریضہ ہے کہ اپنی جان، اپنی روح، اپنی صحت کے مالک کو کم از کم تھینکس تو کہیں اور اس بات کا احساس کریں کہ گناہ گار ہونے کے باوجود ہمارے رب کی نعمتیں ہم پر برس رہی ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ اس نے ہم کو ڈھیل دے رکھی ہو، سنبھلنے کے لئے وقت دے رکھا ہو۔
تیسرا اور سب سے اہم مرحلہ یہ ہے کہ اس کی دی ہوئی نعمتوں کو اس کی نا فرمانی کے لئے استعمال نہ کریں۔ ہمارے پیر، ہمارے قدم چل کر گناہ کی طرف نہ جائیں۔ ہمارے ہاتھ کسی حرام کام کے لئے استعمال نہ ہوں۔ ہماری زبان، ہماری آنکھیں، ہمارے کان اپنے خالق کی معصیت نہ کریں۔ ہم اپنے پیٹ میں، اپنے شکم میں، اپنے نظام ہاضمہ میں لقمہ حرام نہ ڈالیں۔ کتنی عجیب سی بات ہے کہ ا نسان بیماری کے خوف سے، ڈاکٹر کے کہنے پر غذا سے پرہیز کرلیتا ہے۔ لیکن اپنے خدا کے خوف سے، اسی کے کہنے پر گناہ سے پرہیز نہیں کرتا۔
سو زندگی کے نشیب و فراز کو، دنیا کے امتحانات کو، آزمائشوں کو اپنے رب کی طرف سے ٹیسٹ سمجھیں، ذریعہ سمجھیں جن سے مخلوق اپنے خالق کے قریب ہو سکتی ہے۔ یاد رکھیں، جو سکھ میں شکرادا کرتا ہے، اپنے رب کو یاد رکھتا ہے، وہ دکھ میں اپنے رب کو بہت قریب پاتا ہے۔ اور تو اور یہ بات اب میڈیکل سائنس اور طبی تحقیق سے بھی ظاہر ہے کہ قناعت، شکر ادا کرنا، رب کے دیے ہوئے پر راضی برضا رہنا، ذہنی و جسمانی سکون کا باعث ہے۔ انزائیٹی یعنی بے چینی، ان دیکھے، انجانے خوف کو کم کرتا ہے، اسٹریس ہارمونز کی سطح کو بہتر بناتا ہے۔ جبکہ نا شکری انسان کو تنہائی، آٓئسو لیشن، مایوسی، اداسی اور ڈپریشن کی طرف لے جاتی ہے جو نا صرف خود ایک بیماری ہے بلکہ اور بھی بہت سی دوسری بیماریوں کے امکان کو بھی بڑھا دیتی ہے۔
وہ کہتے ہیں نہ کہ طلب مار دیتی ہے، اگر خدا کے سوا کسی اور کی ہو۔ سو سب سے بہتر ہے کہ حاجت اسی سے ہونی چاہیے جو خود کسی دوسرے کا محتاج نہ ہو جو خود بے نیاز ہو۔
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
اسی کے ساتھ ساتھ کوشش کریں کہ آپ کے ملنے ملانے والوں میں، ارد گرد موجود رہنے والے لوگوں میں ایسے لوگ زیادہ ہوں جو آپ کو خدا کا اس کی دی ہوئی نعمتوں پر شکر ادا کرنے کی ترغیب دیں، احساس دلائیں۔ وہ جو کہتے ہیں نہ:
”پوچھا کچھ اس طرح سے، اس نے مرا مزاج۔
کہنا پڑا کہ شکر ہے پروردگار کا