baal girney ki sab sey bari wajah

پوچھا جو ان سے چاند نکلتا ہے کس طرح

زلفوں کو رخ پہ ڈال کے جھٹکا دیا کہ یوں

قارئین۔ ایک چاند تو زلفوں کے پیچھے سے نکلتا ہے مگر ایک چاند ایسا بھی ہوتا ہے جو زلفوں کے نیچے سے نکلتا ہے۔ اس وقت نکلتا ہے جب زلفیں اپنی جگہ چھوڑ دیتی ہیں۔ گر جاتی ہیں، جھڑ جاتی ہیں۔

جی ہاں، ہم بات کر رہے ہیں، گنج پن کی، بال چھڑ کی، بال گرنے کی۔

بال انسانی شخصیت کا اہم جز ہے جو حسن کو چار چاند بھی لگاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں خوبصورتی کے مروجہ معیار میں لمبے اور گھنے بال بھی خوبصورتی کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ کسی بھی مرد یا خاتون کے لیے سر کے بال گر جانا ایک ڈراؤنے خواب کی حیثیت رکھتا ہے اور خاص طور پر جب کسی مرد کو اپنے بالوں کے گرنے کا احساس ہوتا ہے تو اس کے اندر ایک بے چینی اور پریشانی پیدا ہوجاتی ہے، کانفیڈنس کی کمی ہو جاتی ہے۔ احساس کمتری بھی پیدا ہو سکتا ہے۔

بال کیوں گرتے ہیں؟ ہر بال کی اوسط عمر چار سال۔ ہوتی ہے۔ جب اس کی زندگی ختم ہو جاتی ہے تو یہ جھڑ جاتا ہے اور اس کی جگہ نیا بال لے لیتا ہے جب بال گرنے کی مقدار بال اگنے کی مقدار سے زیادہ ہو جاتی ہے تو آٓہستہ آہستہ ہم گنجے ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں خوفزدہ ہونے کی بجائے ہمت و ہوشیاری سے کام لیجیے اور اس مسئلہ سے نمٹنے کا سوچیں ورنہ تو بالوں کے گرنے کی رفتار مزید بڑھ جائے گی۔ درحقیقت متعدد وجوہات ایسی ہوتی ہیں جن کے نتیجے میں مر اور خواتین اپنے بالوں سے محروم ہوتے ہیں۔

سب سے پہلی اور عام ترین وجہ ہے جینز یعنی فیملی ہسٹری۔

خاص کر مردوں میں سر کے درمیان ایک گول دائرے کی شکل میں بالوں کے غائب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ درحقیقت یہ یو ٹائپ گنج پن متعدد مردوں کے جینز کا حصہ ہوتا ہے اور نسل در نسل خاندان کے لوگوں میں منتقل ہوتا رہتا ہے۔ سو اگر آٓپ کے باپ بھائی دادا وغیرہ میں گنج پن موجود ہے اور آپ مرد ہیں تو آپ میں ایک ہارمون جسے ڈی ایچ ٹی کہتے ہیں، بالوں کے گرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اور زیادہ تر مردوں میں گنج پن اسی ڈی ایچ ٹی ہارمون کی وجہ سے ہوتا ہے اور مستقل اور بہت تیزی سے ہوتا ہے۔ سو نسل در نسل منتقل ہونے ولی ڈی ایچ ٹی سے پیدا ہونے والی بالوں کی کمزوری بالوں کی گرنے کی سب سے بڑی وجہ ہوتی ہے اور یہ وجہ ہے کہ ہم کتنے ہی ٹوٹکے کیوں نہ آزما لیں، یہ بال گرنا نہیں رکتے۔

یہ ڈی ایچ ٹی آخر ہوتا کیا ہے؟ ڈی ایچ ٹی نام ہے ایک ہارمون کا جو بنتا ہے ایک اور ہارمون یعنی ٹیسٹیسٹرون سے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ٹیسٹیسٹرون صرف مردوں میں ہوتا ہے لیکن یہ خواتین میں بھی پایا جاتا ہے۔ اور اگر ان میں بھی ڈی ایچ ٹی کی وجہ سے بال گرنے کی فیملی ہسٹری ہے تو خواتین میں بھی بال گرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ سو ڈی ایچ ٹی کی لیول یعنی سطح جب زیادہ ہو جاتی ہے تو یہ بالوں کی جڑوں میں پہنچ کر انھیں سکیڑ دیتا ہے اور نتیجے کے طور پر ان میں دوران خون اور غذائیت ٹھیک طرح پہنچ نہیں پاتی اور بال گرنا شروع ہو جاتے ہیں۔

اور آہستہ آہستہ بالوں کی جڑ سکڑ کر مکمل طور پر بند ہو جاتی ہے اور نئے بال نہیں اگ سکتے اور آپ مستقل طور پر گنج پن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ حتی ٰ کہ اگر آپ کے ڈی ایچ ٹی نارمل سطح پر بھی ہے لیکن آپ کے خاندان میں گنج پن کا کا ایشو ہے تب بھی بہت ممکن ہے کہ نارمل سطح والا ڈی ایچ ٹی بھی وقت سے پہلے آپ کے بال گرا دے۔

اس کے علاوہ مردوں اور خواتین میں بال گرنے کی دوسری وجوہات بھی ہوتی ہیں مگر ان میں بال گرنا اکثر عارضی ہوتا ہے جیسے عمر بڑھنے کے ساتھ بالوں کے ہلکے پن کا سامنا ہوتا ہے اور تیس سال سے زائد عمر کے بعد بالوں کی نشوونما سست اور موٹائی کم ہونے لگتی ہے۔

اسی طرح دوران حمل، بچے کی پیدائش کے وقت اور تھائرائیڈ کی شکایت کی وجہ سے ہارمونز میں تبدیلی ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں بال گر سکتے ہیں۔

وہ خواتین جن میں اکثر آئرن کی کمی ہوجاتی ہے ان میں بھی بال گرنے لگتے ہیں۔

بالوں کو رنگنا یا بلیچ کرنا بھی ایک وجہ ہے کیونکہ بہت زیادہ کیمیکل استعمال کرنے سے بال روکھے بے جان و بے رونق ہو جاتے ہیں اور کمزور ہو کر گرنے لگتے ہیں۔

نا مناسب غذا بھی ایک وجہ ہے۔ جسم کے ہر حصے کی طرح بالوں کو بھی بڑھنے اور صحت مند رہنے کے لیے غذائیت کی ضرورت ہوتی ہے اور ناقص غذا بالوں کے گرنے کا باعث بنتی ہے۔ ناشتے کو دن کی اہم ترین غذا قرار دیا جاتا ہے۔ اگر لوگ ناشتہ نہ کریں تو سر کو ایندھن نہیں ملتا، یعنی فیول نہیں ملتا اور ان کے گرنے کی رفتار تیز ہو جاتی ہے۔

بہت زیادہ تناؤ یعنی مینٹل سٹریس سے بھی بالوں کا گرنا بہت زیادہ ہوجاتا ہے۔

ایک اور وجہ ہے اور وہ یہ کہ اگر آپ کے بال لمبے ہیں اور آپ انہیں سختی سے باندھتے ہیں تو بالوں کی جڑوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے اور گنج پن کی جانب سفر تیز ہوجاتا ہے۔

پھر ہے ڈینڈرف۔ بالوں میں خشکی کے نتیجے میں خارش کی تکلیف لاحق ہو سکتی ہے اور اس کے نتیجے میں بالوں کو نقصان پہنچتا ہے اور عارضی طور پر بالوں سے محرومی کا سامنا ہو سکتا ہے۔

زیادہ دیر تک ہیئر ڈرائر کا استعمال یا آئے روز شیمپو بدل بدل کر یا بہت زیادہ شیمپو استعمال کرنے سے بھی بال کمزور ہو کر جھڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اسی لئے خشک یا نازک بالوں کے مالک افراد کو بال کم دھونے چاہیے۔ الکحل والی جیل لگانا بھی بالوں کو زیادہ تیزی سے گرانے کا باعث بن سکتا ہے۔

زیادہ جارحانہ انداز میں، زور زور سے کنگھا کرنا بھی بالوں کے اکھڑنے یا ٹوٹنے کا سبب بنتا ہے۔
تمباکو نوشی سے بھی سر میں دوران خون کی شرح کم ہوتی ہے جس سے بال ہلکے ہوتے ہیں۔

سو یہ تھیں بال گرنے یا گنج پن ہونے کی اہم ترین وجوہات۔ اب سوال یہ ہے کہ بال گرنے سے بچاؤ کیسے کیا جاسکتا ہے؟

اس کا جواب آپ کے بال گرنے کی وجہ پر منحصر ہے۔ اگر تو آپ مرد ہیں اور آپ کے بال گرنے کی وجہ فیملی ہسٹری اور ڈی ایچ ٹی ہارمون ہے تو پھر کچھ ادویات اور لوشن جن کو صرف ڈاکٹر ہی تجویز کر سکتا ہے آپ لے سکتے ہیں لیکن۔ اس میں ایک مسئلہ ہے۔ جیسے ہی آپ دوا کا استعمال روکیں گے تو ڈی ایچ ٹی پھر اپنا اثر دکھانا شروع کر دے گا۔ سو ایسی صورت میں مستقل حل ہے ہیر ٹرانس پلانٹ۔

اگر دوسری وجوہات کی بات کریں تو ذہنی تناؤ یا مینٹل اسٹریس کا باعث بننے والی وجوہات کو زندگی سے نکالنا ہے تاہم ایسا ممکن نہ ہو تو دماغی صلاحیت تیز کرنے والی مشقیں اور ورزش کو معمول بنالینا فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ صبح کے وقت لمبے لمبے سانس لینے جیسی ورزشوں کو یقینی بنانے سے بھی آپ کے بالوں کے گرنے کی رفتار کم ہو سکتی ہے۔

وہ خواتین و حضرات جو دھوپ اور گردوغبار میں باہر نکلتے ہیں ان کے لیے ضروری ہے کہ اپنے بالوں کو مناسب انداز میں ڈھانپیں کیونکہ دھول مٹی اور آلودگی کی چکنائی بھی بالوں کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔

پھر سب سے ضروری ہے خوراک۔ آپ جو کچھ بھی کھاتے ہیں اس کا براہ راست اثر آپ کے بالوں پر ہوتا ہے اس لیے اگر آپ غذا متوازن انداز میں نہیں کھاتے تو بال گرنے اور پتلے ہونے کی شکایات بڑھتی رہیں گی۔ سو بالوں کو گرنے سے بچانے کے لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ آپ اپنی خوراک کا خاص خیال رکھیں۔ خوراک میں ایسی غذا کا استعمال کریں، جس میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈ پایا جاتا ہو، کیوں کہ یہ باآسانی سر کی جلد تک پہنچ کر بالوں کی جڑوں کو مضبوط بناتا ہے۔ یاد رہے کہ مچھلی اور خشک میوہ جات اومیگا تھری فیٹی ایسڈ کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔

اب بات کر لیتے ہیں کہ کون سا تیل بالوں کے لئے مفید ہے۔ یہ بات جان لیجیے کہ طبی طور پر تو ایسا کوئی تیل نہیں بتایا گیا ہے لیکن زیتون کا تیل اور روغن بادام اپنی غذائیت کی وجہ سے مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ پھر کچھ لوگ اس میں پیاز اور لہسن کا رس، سیب کا سرکہ، شہد، دار چینی وغیرہ ملا کر بھی استعمال کرتے ہیں۔ یاد رکھیں، بالوں کا گرنا اگر ڈی ایچ ٹی اور فیملی ہسٹری کی وجہ سے ہے تو دنیا کا کوئی بھی تیل اس کو نہیں روک سکتا۔

سب سے اہم کردار خوراک یعنی غذا کا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہم وہی ہوتے ہیں جو ہم کھاتے ہیں۔ سو کون سی غذائیں لی جائیں جن سے وقت سے پہلے بال گرنے کا رسک کم کیا جا سکے۔

کچھ غذائی جزو تحقیق کی رو سے ثابت ہیں کہ گنج پن کو روکنے میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔ جیسے اومیگا تھری فیٹی ایسڈ۔ بالوں کو گرنے سے بچانے کے لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ آپ اپنی خوراک میں ایسی غذا کا استعمال کریں، جس میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈ پایا جاتا ہو، کیوں کہ یہ باآسانی سر کی جلد تک پہنچ کر بالوں کی جڑوں کو مضبوط بناتا ہے۔ یاد رہے کہ مچھلی اور خشک میوہ جات اومیگا تھری فیٹی ایسڈ کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔ زیتون کا تیل بھی اس کا ہم ذریعہ ہے جس کو آپ سر میں لگا بھی سکتے ہیں اور کھانے اس میں پکا بھی سکتے ہیں۔

اسی طرح جن غذاؤں میں زنک پایا جاتا ہے، ان کا استعمال بڑھا دیں کیوں کہ زنک مخصوص ہارمونز میں باقاعدگی لا کر بالوں کو گرنے سے روکتا ہے۔ پالک، مچھلی، اناج، کدو، سرسوں کا بیج، مرغی کا گوشت، پیٹھا اور خشک میوہ جات زنک کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں۔

پروٹین سے بھرپور غذائیں بھی مفید ہیں۔ دودھ، مسور کی دال، مچھلی، سفید گوشت، دہی، پنیر، لوبیا، انڈہ اور سویابین کے استعمال سے گرتے بال رک سکتے ہیں، کیوں کہ یہ پروٹین سے بھرپور ہوتے ہیں۔

آئرن سے بھرپور غذائیں : بھی مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ انڈے کی زردی، سرخ گوشت، پتوں والی سبزیاں، خشک میوہ جات کھجور، چقندر، سیب، گاجر، ، لوبیا، مسور کی دال اور سویابین کا استعمال یقینی بنائیں کیوں کہ ان میں آئرن پایا جاتا ہے، جو بالوں کی بہترین نشوونما کے لئے نہایت ضروری ہے۔

وٹامنز میں وٹامن اے اور سی غدودوں کی رطوبت میں اضافہ کا باعث ہیں، جو بالوں کو قدرتی طور پر مضبوط بناتی ہے۔ وٹامن اے اور سی کے حصول کے لئے آلو، گاجر، پالک، پپیتا، شملہ مرچ، سٹرابری، انناس اور مالٹے کا استعمال کریں۔
جہاں تک پرہیز کا تعلق ہے تو جنک فوڈ، الکحل اور تمباکو نوشی سے مکمل پرہیز آپ کے بالوں کو نئی زندگی بخش سکتا ہے۔ آزمائش شرط ہے۔