کیا کزن میرج مستقبل کی اولاد کے لیے خطرناک ہوتی ہے؟
کیا خاندان میں شادیاں کرنے سے یا یوں کہہ لیں کزن میرج سے بچوں میں پیدائش نقص کا خطرہ بڑھتا ہے؟
کیا کزنز کے درمیان شادیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد معذور پیدا ہوتی ہے؟
کیا کزن میرج کرنی چاہیے؟
کیا کزن میرج اولاد کے لیے خطرناک ہوتی ہے؟
ان سارے سوالوں کا جواب اتنا آسان نہیں بلکہ اس کے لئے بنیادی جینیاتی اصولوں سے واقفیت ضروری ہے۔
دنیا کے کچھ حصوں میں کزنز کے درمیان شادی کو بہترین تصور کیا جاتا ہے جبکہ کچھ حصوں میں انہیں ممنوع قرار دیا جا چکا ہے۔ چند رپورٹوں کے مطابق پچاس فیصد پاکستانی کزن میرج کی حمایت کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ کزن میرج کے حوالے سے لاحق خدشات کے باوجود جدید دور میں بھی بہت سے گھرانوں میں شادیاں خاندان میں ہی کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ آج ہم بات کریں گے خالصتاً طبی یعنی میڈیکل نقطہ نظر کے حوالے سے۔ تحقیق کیا کہتی ہے۔ ریسرچ کے نتیجے میں کیا شواہد سامنے آئے ہیں۔
آئیے سب سے پہلے کزن میرج کے حق میں دیے جانے والے دلائل کا جائزہ لیتے ہیں۔
کزن میرج دنیا میں ہمیشہ سے ہے۔ ساری دنیا کے سب انسان ایک دوسرے کے کزن ہی ہیں لیکن کافی پچھلی نسلوں میں جا کر۔ دنیا میں ہر دس میں سے ایک بچے کے والدین ایک دوسرے کے رشتے دار ہوتے ہیں۔ کزنز میرج کے کئی فائدے بھی ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر خاندان کے حوالے سے، چھان بین اور تحقیق کی ضرورت نہیں۔ ہونے والے شوہر اور بیوی بچپن سے ہی ایک دوسرے کے طبیعت، مزاج اور فطرت سے واقف ہوتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے ماں باپ کو بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔
سو ان کے درمیان ذہنی ہم آہنگی، انڈر اسٹینڈنگ ہونے کے چانسز بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان میں خاندان میں شادیوں کا رواج کافی زیادہ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اکثر افراد کے آبا و اجداد ایک ہی ہوتے ہیں۔ اور پھر ہمارے کلچر میں، شادی صرف دو افراد کے درمیان نہیں بلکہ خاندانوں میں ہوتی ہے۔ اگر دونوں خاندانوں کی اقدار ایک جیسی ہیں تو شادی کامیاب ہونے کا زیادہ امکان ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق برطانیہ میں شادیوں کے ٹوٹنے کی شرح بیالیس فیصد ہے لیکن کزن میرج ٹوٹنے کی شرح صرف بیس فیصد ہے جو بہت متاثر کن ہے۔
تو پھر کزن کے ساتھ شادی میں مسئلہ کیا ہے؟
آج انسان کا جینوم یعنی اس کا جینیاتی کوڈ جسے ڈی این اے بھی کہتے ہیں، پڑھا جا چکا ہے اور بیماریاں کس طرح ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی ہیں، ہم ان کے بارے میں اتنی تفصیل سے جانتے ہیں جیسا پہلے ممکن نہیں تھا۔ اس فیلڈ میں بہت ریسرچ ہو چکی ہے۔ اب ہزاروں میل کا پیدل سفر کر کے کوئی بڑی لائبریری تلاش کرنے کی بھی ضرورت ختم ہو گئی۔ پب میڈ جیسی ویب سائٹس نے دنیا بھر کے اسکالرز کی تمام زندگی کی کھوج کے نتائج ہماری انگلیوں کی پوروں تک پہنچا دیے۔
چند دہائیاں پہلے یہ مشاہدہ کیا گیا کہ قریبی رشتہ داروں میں بنائے ہوئے تعلقات سے ہونے والی اولاد میں چند مخصوص بیماریوں کی شرح زیادہ پائی گئی۔ اس وجہ سے آہستہ آہستہ تعلیم یافتہ انسان اور ممالک اس پریکٹس سے دور ہونا شروع ہوئے۔ تحقیق کے مطابق اس طرح کے امراض والدین سے بچوں میں مخصوص ڈی این اے کے باعث ورثے میں منتقل ہوتے ہیں، جیسے سیکھنے میں مشکلات اور ذہنی معذوری وغیرہ
اور جتنا زیادہ ایک دوسرے سے ڈی این اے شیئر کریں گے، اتنے ہی زیادہ جینیاتی امراض جیسے تھیلی سیمیا اور دیگر اولاد میں سامنے آنے کا امکان بڑھے گا۔ تو اب بات کرتے ہیں کہ کزن میرج خصوصاً فرسٹ کزن (چچا اور تایا کی اولاد) میں شادی کتنی خطرناک ہو سکتی ہے، جس کے لیے یہ تخمینہ لگانا ہوگا کہ دونوں کزن میں ایک جینیاتی مرض کی کاپی کا امکان کتنا ہوتا ہے۔
جینیاتی اعتبار سے بات کی جائے تو کزن میرج سے ڈی این اے شیئر کرنے کی شرح بڑھ جاتی ہے۔ اور جتنا زیادہ ایک دوسرے سے ڈی این اے شیئر کریں گے، اتنے ہی زیادہ جینیاتی امراض جیسے تھیلی سیمیا اور دیگر اولاد میں سامنے آنے کا امکان بڑھے گا تاہم اس بارے میں مزید بات کرنے سے پہلے ایک حقیقت جان لینا ضروری ہے کہ اولاد میں جینیاتی مرض اس وقت منتقل ہوگا، جب آپ کے جینز میں مسئلہ ہوگا مثال کے طور پر اگر دونوں میاں بیوی کے جینز میں بیماری کے جینز موجود ہیں تو پچیس فیصد امکان موجود ہے کہ وہ بیماری ان کے بچوں میں بھی آئے گی۔ اگر آپ اور آٓپ کے لائف پارٹنر آپس میں کزنز ہیں اور دونوں کی جیز میں خرابی نہیں تو پھر یہ شادی ایسی ہی کہی جائے گی جیسے کوئی بھی دوسری عام شادی۔
سو اگر آپ کے آبا و اجداد آپ کے ڈی این اے کا اعشاریہ دو فیصد حصہ شیئر کرتے ہیں، تو اس کے مقابلے میں تھرڈ کزن سے ڈی این اے شیئر کرنے کی شرح اعشاریہ آٹھ فیصد، سیکنڈ کزن میں تین اعشاریہ ایک فیصد اور فرسٹ کزن تیرہ فیصد ہوتی ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق کزن میرج سے بچوں میں کسی موروثی مرض کا خطرہ چار سے سات فیصد تک بڑھتا ہے جبکہ عام آبادی میں یہ تین سے چار فیصد ہے۔
ہر حمل میں جینیاتی نقص کا دو فیصد امکان موجود ہوتا ہے لیکن جب یہ حمل کزن میرج میں ہو تو رسک کی شرح پانچ فیصد ہو جاتی ہے۔ اسی طرح خراب جینز کی صورت میں کزنز کی آپس میں شادی ان کی اولاد میں مختلف ذہنی امراض جیسے ڈپریشن اور ذہنی بے چینی وغیرہ کا خطرہ تین گنا تک بڑھا سکتی ہے۔ نیز عام افراد میں ڈپریشن کا خطرہ زندگی میں دس فیصد تک ہوتا ہے مگر کزن میرج کے نتیجے میں یہ خطرہ تیس فیصد تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ دعویٰ آئرلینڈ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا۔
کوئینز یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کزن میرج یعنی رشتے داروں کی آپس کی شادی کے نتیجے میں ان کے بچوں میں شیزوفرینیا جیسے مرض کا امکان، غیروں میں کی جانے والی شادی کی نسبت دوگنا بڑھ جاتا ہے۔ پھر اگر بچے مستقبل میں اپنے فرسٹ کزن سے شادی کریں اور ان کے بچے بھی یہی روایت آگے بڑھائیں تو یہ آنے والی نسلوں میں تباہی کا باعث بن سکتی ہے، کیونکہ وہ پرانے جینز کو بھی ممکنہ طور پر ری سائیکل کر رہے ہوں گے اور ملٹی پلائی کر رہے ہوں گے۔
مثال کے طور پر اگر دو تھیلی سیمیا مائینر افراد بے خبری میں آپس میں شادی کر لیں تو انہیں مستقبل میں تلخ تجربات کا سامنا ہوتا ہے، اور ان کے ہاں پیدا ہونے والی اولاد کو تھیلی سیمیا میجر ہوجاتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون کون سی بیماریاں ہیں جو خاندانی شادیوں کے نتیجے میں ہونے والے بچوں میں منتقل ہو سکتی ہیں؟ ایسی بیماریوں کو موروثی بیماریاں کہا جاتا ہے۔ ڈاؤن سنڈروم، خون کے امراض جیسے تھیلی سیمیا، بہت سے نفسیاتی امراض اور دل کے امراض، ذیابیطس وغیرہ۔ سو جینیاتی بیماریوں کو ہم دو اقسام میں تقسیم کر سکتے ہیں۔
سو کزن میرج کرنی چاہیے یا نہیں؟ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟
اسلامی حوالے سے تو یہ بالکل جائز ہے۔ لیکن واجب نہیں۔ ہمارا مذہب کزن میرج کو منع نہیں کرتا لیکن اس چیز کی ممانعت کرتا ہے کہ کسی بالغ شخص کو اس کی مرضی کے برخلاف شادی پر مجبور کیا جائے۔ سو کزن میرج صرف اس لئے نہیں کرنی چاہیے کہ ہمارے کلچر میں، ہمارے قبیلے میں، ہمارے خاندان میں، ہماری کمیونٹی میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ لیکن تب بھی اگر آپ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی وجہ سے یہ آپ کے لئے ضروری ہے تب اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ ایسی شادی سے قبل اپنی اور اپنے ہونے والے شریک حیات کی سکریننگ کروائیں۔ یعنی کچھ ٹیسٹ کروائیں تو اس سے رسک کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ سو جہاں تک کزن سے شادی کی بات ہے تو ایسا کرنے میں برائی نہیں اگر طبی معائنہ کرا کے جینیاتی امراض کے خطرے کی جانچ پڑتال کی جائے، تاہم اسے خاندانی روایت بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔