hum hujom kay pichey kiyon chaltay hain

کیا آپ نے کبھی نوٹ کیا؟ کسی پارٹی میں بچے غباروں سے کھیل رہے ہوتے ہیں اور اچانک ایک بچہ ایک لال غبارے کو پکڑتا ہے اور چیختا ہے کہ یہ میرا ہے۔ اور سب ہی ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اپنے اپنے غبارے چھوڑ کر اس ایک لال غبارے کے پر لڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔

ہمیں دوسرے اتنا متاثر کیوں کرتے ہیں؟
ہم ہجوم کے پیچھے کیوں بھاگتے ہیں؟
ہم ایک خاموش ریسٹورینٹ کو چھوڑ کر ایک رش والی جگہ پر کھانا کیوں پسند کرتے ہیں؟

ہم کیوں بلا دیکھے، بنا پوچھے سب سے لمبی قطار میں لگ جاتے ہیں، یہ تک جانے بغیر کہ یہ قطار صحیح بھی ہے کہ نہیں؟

ہم بحران کے دوران چیزیں کیوں جمع کر لیتے ہیں؟
ہم وبا کے دوران سپر اسٹوروں سے آٹے، دال چینی اور چاول کی بوریوں سے کیوں اپنا گھر بھر لیتے ہیں؟
ہمیں کیوں اپنی ضرورت سے زیادہ کی چاہت ہوتی ہے؟
ہم کیوں ایک اتنا بڑا گھر چاہتے ہیں جس میں ٹھیک سے وقت تک نہ گزار سکیں؟
جواب ایک ہی ہوتا ہے۔
کیونکہ سب یہ چاہتے ہیں۔
لوگ یہ کرتے ہیں
لیکن آپ وہ سب کیوں کرتے ہیں جو سب کرتے ہیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ کیونکہ سب یہ کر رہے ہوتے ہیں۔
لیکن آپ وہ کیوں کرتے ہیں جو ہر کوئی کرتا ہے؟
دوسروں کے پیچھے اندھا دھند بھاگنا کیوں؟

کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ انجانے میں کسی ایسے کھیل میں، کسی ایسی دوڑ میں شریک ہو رہے ہوں جو آپ کے ساتھ کھیلا جا رہا ہو؟

ہماری بہت سی خواہشات ہمارے اندر سے وجود میں نہیں آتیں بلکہ ہم انہیں باہر سے ادھار لیتے ہیں اور وہ بھی دوسروں کی دیکھا دیکھی۔ اور پھر یہ نقل کی ہوئی خواہشات اتنی طاقتور ہو جاتی ہیں کہ ہمیں معلوم بھی نہیں ہوتا کہ یہ تو ہماری اپنی بھی نہیں بلکہ دوسروں کی ہیں۔

جی ہاں، پوری ایڈور ٹائزنگ یعنی اشتہاری انڈسٹری اسی اصول پر کام کرتی ہے، ایک کی خواہش کو ادھار لے کر دوسروں کو یہ باور کرانا کہ آپ بھی تو یہ چاہتے ہیں۔ سب یہ کر رہے ہیں سو اگر آپ نے یہ نہیں کیا تو آپ گھاٹے میں رہیں گے۔ بڑی بڑی کمپنیوں کو ہمیں قائل نہیں کرنا ہوتا کہ فلاں برانڈ اچھا ہے بلکہ صرف یہ ظاہر کرنا ہوتا ہے دوسرے اسے اچھا سمجھتے ہیں۔ جو مشہور ہے، وہی اچھا ہے۔

اور اس طرح ہم پر زبردستی ایک خوف مسلط کر دیا جاتا ہے، جانتے ہیں کون سا خوف؟
”لوگ کیا کہیں گے“ کا خوف!

آج کے سوشل میڈیا ہر بھی ہم یہی دیکھتے ہیں۔ ہم بہت سی مشہور شخصیات کو، سیلیبریٹیز کو محض اس لئے ’’فالو” اور“ لائیک” کرنا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ ان کو فالو کرنے والوں کی تعداد لاکھوں اور کروڑوں میں ہوتی ہے۔

اسٹاک مارکیٹ میں بھی لوگ اکثر دوسروں کو دیکھ کر سرمایہ لگانا شروع کر دیتے ہیں۔
لیکن کیا یہ سب غلط ہے؟
دوسروں کو فالو کرنے میں کیا برائی ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ دوسروں کے پیچھے اندھا دھند بھاگنے سے آپ کے اپنے اندر کی صلاحیتیں کبھی باہر نہیں آپاتیں۔

کیونکہ کوئی بھی نظریہ، کتنا ہی مشہور کیوں نہ ہو، ہمیشہ صحیح نہیں ہوتا۔

ہجوم کے پیچھے بھاگنے والے ہجوم میں ہی گم ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اپنی شناخت کھو دیتے ہیں اور بس وہیں تک ہی جا پاتے ہیں جہاں تک دوسرے جاتے ہیں۔

ایسے لوگوں کی ذہنیت ایک بھیڑ کی ذہنیت بن کر رہ جاتی ہے۔

کیونکہ بھیڑیں ہمیشہ دوسری بھیڑوں کے ریوڑ کے ساتھ ہی چلتی ہیں۔ پیچھے چلتی ہیں۔ جہاں ان کو لے جایا جاتا ہے چلی جاتی ہیں چاہے ان کو مزبح خانے ہی کیوں نہ لے جایا جائے اور وہاں ان کو کاٹ کر مار ہی کیوں نہ دیا جائے۔ ایک بھیڑ کبھی اپنا ذہن استعمال نہیں کرتی۔ وہ ہمیشہ خوٖف اور بے یقینی میں ہی رہتی ہے۔

لیکن جیسے ہی آپ لوگوں کے پیچھے چلنا بند کرتے ہیں، آپ بھیڑ نہیں رہتے، بلکہ شیر بن جاتے ہیں۔
ایک بھیڑ کبھی آگے نہیں چلتی۔
ایک شہر کبھی پیچھے نہیں چلتا۔

آپ کبھی ایک شیر کو کاٹنے کے لئے نہیں لے جا سکتے، البتہ وہ آپ کو پھاڑ کھانے کے لئے لے ضرور لے جائے گا۔

کبھی کبھی اکیلے چلنا بھی ضروری ہوتا ہے۔
صحیح سمت میں اکیلے چلنا ہجوم کے ساتھ غلط راستے پر جانے سے بہتر ہوتا ہے۔
سو دوسروں کو فالو کرنے کے بجائے کیوں نہ ایسے بن جائیں جن کو دوسرے فالو کریں؟
جو آپ اپنی زندگی میں چاہتے ہیں اس کے لئے دوسروں پر انحصار نہیں کر سکتے۔
دوسروں جیسا بننے کی غلطی نہ کریں۔
ہر کوئی آپ کے جیسا نہیں ہو سکتا۔
آپ ہر کسی کے جیسے نہیں ہو سکتے۔
دوسروں کو اپنی زندگی کی ڈرائیونگ سیٹ پر نہ بیٹھنے دیں۔

ہاں، زندگی میں کچھ راستوں میں رہنما کی ضرورت ہوتی ہے خاص طور ہر جہاں آپ کا علم اور تجربہ محدود ہو لیکن اس رہنما کو چننے کے لئے بھی پہلے اپنی عقل کو رہنما بنائیے۔

اچھے نظریات کے پیچھے چلیں، اچھے رہنماؤں کو فالو کریں۔

ایسے لوگوں کی تقلید کریں جو آپ کی ذات کو، آپ کے پروفیشن کو، آپ کی روح کو سنوارنے میں آپ کی مدد کر سکیں۔

کثرت کو معیار نہ بنائیں۔ معیار کو معیار بنائیں چاہے وہ قلت میں ہی کیوں نہ ہو۔
آپ کو منفرد بنایا گیا ہے۔ اب آپ کو مختلف کیسے بننا ہے؟ اس پر آج اور ابھی اسی وقت سوچیں!