آج ہم بات کریں گے جوڑوں کے درد کی یعنی آرتھرائیٹس کی۔ آسان اور سلیس زبان میں جوڑوں کی سوزش اور ورم۔
یوں تو آرتھرائیٹس کا مرض کئی طرح کا ہو سکتا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں، خصوصاً ً پاکستان میں دو طرح کا آرتھرائیٹس سب زیادہ پایا جاتا ہے۔
آسٹیو آرتھرائیٹس (جسے عام طور پر جوڑوں کا مرض کہا جاتا ہے )
رہیومیٹوائڈ آرتھرائیٹس (جسے اردو میں جوڑوں کا پتھرانا بھی کہتے ہیں )
یہاں یہ یاد رہے کہ جب ہم عام طور پر کسی کو کہتے ہیں کہ فلاں کو جوڑوں کی پرانی بیماری یا مرض ہے، تو زیادہ تر اس سے مراد آسٹیو آرتھرائیٹس ہی ہوتا ہے کیونکہ یہ دنیا بھر میں آرتھرائیٹس کی سب سے زیادہ پائی جانے والی، یعنی کامن قسم ہے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کون سے طریقے ہیں، وہ کون سی خوراک ہے، وہ کون سی غذائیں ہیں جن کو اپنی زندگی میں شامل کر کے ہم آرتھرائیٹس کے نہ صرف رسک کو کم کر سکتے ہیں بلکہ اس مرض کی شدت کو بھی کم کر سکتے ہیں۔ تا ہم یہ خیال رہے یہ یہ سب چیزیں ڈاکٹر کی تجویز کردہ دواؤں کا، ڈاکٹر کے نسخے کا نعم البدل نہیں ہو سکتیں بلکہ ان کو ڈاکٹر کے تجویز کردہ علاج کے ساتھ اپنی زندگی کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔
سو بات ہو رہی تھی کہ کون سی ڈائٹ یا کون سی غذائیں ایسی ہیں جن کو غذا میں ضرور شامل کرنا چاہیے تا کہ ہم آرتھرائیٹس کے مرض کو یا تو ہونے سے روک سکیں یا کم از کم اس کا کامیابی سے مقابلہ کر سکیں۔
ادرک سے بنی چائے سے لطف لینا
متعدد طبی تحقیقی رپورٹس میں یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ ادرک کے اندر ایسی خاصیت ہوتی ہے جو جوڑوں کے درد کے لیے استعمال کی جانے والی ادویات کا اثر بڑھا دیتی ہے۔ مگر ادویات کے بغیر بھی یہ کافی مفید ثابت ہوتی ہے، اس کے لیے ادرک کو پیس کر سفوف کی شکل میں استعمال کریں یا اس کے باریک ٹکڑے کر کے اسے چائے کے لیے ابالے جانے والے پانی میں پندرہ منٹ تک ڈبو کر رکھیں، اس کا مستقل استعمال جوڑوں کے درد میں کمی لانے کے لیے بہترین ثابت ہوگا۔
سوجن کی روک تھام کرنے والی غذاوں کا استعمال
اگر جوڑوں کے شکار ہیں تو فاسٹ فوڈ، جنک اور تلی ہوئی غذاوں کو ترک کردیں۔ جوڑوں کے مرض کے شکار مریضوں پر کی جانے والی ایک سوئیڈش تحقیق کے مطابق جن لوگوں نے مچھلی، تازہ پھلوں و سبزیوں، گندم یا دیگر اجناس، زیتون کے تیل، نٹس، ادرک لہسن وغیرہ پر مشتمل خوراک کو اپنی عادت بنالیا، انہیں جوڑوں کی سوجن کا کم سامنا ہوا اور ان کی جسمانی صحت میں کافی حد تک بہتری آئی۔
روزانہ سبز چائے کے چار کپوں کا استعمال
امریکا کی ایک یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق روزانہ چار کپ سبز چائے کے استعمال سے جسم میں ایسے کیمیکلز کی مقدار بڑھ جاتی ہے جو جوڑوں کے درد میں مبتلا ہونے کا امکان کم کر دیتے ہیں۔ ایک اور تحقیق کے مطابق سبز چائے میں موجود پولی فینول نامی اینٹی آکسائیڈنٹس سوجن میں کمی لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس سے پٹھوں میں آنے والی توڑ پھوڑ اور درد میں نمایاں کمی آتی ہے۔
ہلدی بھی بہترین
یہ زرد مصالحہ اپنے اندر درد کش خوبیاں رکھتا ہے۔ متعدد طبی تحقیقی رپورٹس کے مطابق ہلدی کا استعمال جوڑوں کے مریضوں کی تکلیف اور سوجن میں کمی لاتا ہے۔ ایک تحقیق میں گھٹنوں کے جوڑوں کے درد کے شکار مریضوں کو روزانہ دو گرام یا ایک چائے کا چمچ ہلدی استعمال کرائی گئی جس کے نتیجے میں ان کی تکلیف میں کمی آئی اور جسمانی سرگرمیوں میں اتنا اضافہ ہوا جو اس مرض کے لیے ادویات کے استعمال پر ہوتا ہے۔ ہلدی کا آدھا چائے کا چمچ چاول یا سبزیوں پر روزانہ چھڑک دیں یا ایسے ہی پانی کے ساتھ نگل لیں یا ہلدی کے سپلیمنٹس کا استعمال کریں۔
وٹامن سی کی مناسب مقدار جسم کا حصہ بنائیں :
وٹامن سی رس دار پھلوں اور سبزیوں میں بہ کثرت پایا جاتا ہے۔ سو اگر آپ کو ذیابیطس نہیں تو میں اپنے مریضوں کو روزانہ پانچ رنگوں کے پھل یا سبزیاں کھانے کو ضرور کہتا ہوں۔ جیسے پیلا (کیلا، پپیتا وغیرہ) ، نیلا یا جامنی (جامن، فالسے، بینگن، آلو بخارہ) ، ہرا (ہری سبزیاں ) ، سرخ (ٹماٹر، چقندر، سیب) اور سفید (مولی، شلجم، مشروم وغیرہ) ۔
خوراک میں لونگ کو شامل کریں
لونگ میں سوجن پر قابو پانے والے کیمیکل یوجینول موجود ہوتا ہے جو کہ اس جسمانی عمل پر اثرانداز ہوتا ہے جو جوڑوں کے درد کو بڑھاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق لونگ کا استعمال ایسے پروٹین کو جسم میں خارج ہونے سے روکتا ہے جو سوجن کو بڑھاتا ہے۔ اس کے علاوہ لونگوں میں اینٹی آکسائیڈنٹس موجود ہوتے ہیں جو ہڈیوں کو کمزور ہونے کا عمل سست کر دیتے ہیں۔ اس کا آدھے سے ایک چائے کا چمچ روزانہ استعمال جوڑوں کے درد میں کمی کے لیے بہترین ہوتا ہے۔
اومیگا تھری فیٹی ایسڈز کا استعمال
اومیگا تھری فیٹی ایسڈز تکلیف دہ جوڑ کو راحت پہنچانے کے لیے بہترین ہوتے ہیں اور ٹھنڈے پانیوں کی مچھلیوں میں اس کیمیکل کی بہت زیادہ مقدار ہوتی ہے۔ تاہم اس کیمیکل کے سپلیمنٹ بھی دستیاب ہیں جو ڈاکٹروں کے مشورے سے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کھانے میں خالص زیتون یا کنولا آئل میں بنانے کو ترجیح دیں کیونکہ اس میں بھی اومیگا تھری فیٹی ایسڈز موجود ہوتے ہیں۔
کیلشیئم کا زیادہ استعمال
بہت کم مقدار میں کیلشیئم کا استعمال ہڈیوں کا بھربھرا پن یا کمزوری کا خطرہ بڑھا دیتا ہے، جس کے نتیجے میں جوڑوں کے درد کی جانب سفر بھی تیز رفتار ہوجاتا ہے۔ پچاس سال کی عمر کے بعد تمام خواتین کو روزانہ 1200 ملی گرام کیلشیئم کا استعمال یقینی بنانا چاہیے، دودھ یا اس سے بنی مصنوعات کیلشیئم کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں مگر دودھ سے بنی غذائیں بھی اس کا انتہائی بہترین ذریعہ ہیں۔ گوبھی اور سبز پتوں والی سبزیوں میں بھی کیلشیئم پایا جاتا ہے جو مقدار کے لحاظ سے دودھ سے کم ہوتا ہے مگر یہ جسم میں زیادہ آسانی سے جذب ہوجاتا ہے۔
مچھلی کے تیل سے بنے کیپسول
ایک برطانوی تحقیق کے مطابق مچھلی کے تیل سے بنے کیپسول بھی جوڑوں میں ہونے والی تکلیف کا باعث بننے والے عمل کو سست کر دیتا ہے جس سے شدت میں کمی آتی ہے۔ مچھلی کے عام تیل سے بنے کیپسول کا استعمال بھی اس حوالے سے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے جو درد کا باعث بننے والے اینزائمز یا خامروں کی مقدار کو کم کر دیتے ہیں۔
اب ہیں کچھ عام ہدایات
سفید آٹے اور چینی کا استعمال ترک کریں۔
روز مرہ کی خوراک میں چاول کا ضرورت سے زیادہ استعمال نہ کریں۔ براون یا بھورے چاول کر سکتے ہیں۔
خوراک میں ایسی غذاؤں کا استعمال کریں جو لیس دار ہوں جیسے دال ماش، پائے، اروی، بھنڈی وغیرہ۔
ایسی غذائیں کھانے سے گریز کریں جو جسم میں یورک ایسڈ کے بڑھنے کا سبب ہوں