Dr. Syed Ikram

پتے کی پتھری: وجوہات، علامات، علاج اور احتیاط

ڈاکٹر سید اکرام

پتہ جسم کا تھیلی نما عضو ہے، جو جگرکے بالکل نیچے دائیں جانب واقع ہوتا ہے۔ یہ تھیلی تقریباً چار انچ لمبی اور ایک انچ چوڑی ہوتی ہے، جس میں ایک سیال یعنی بائل یا صفرا موجود ہوتا ہے۔

پتے کا کام اس بائل یا صفرے کو جمع کرنا ہوتا ہے جو چکنائی وغیرہ کے ہضم ہونے میں مدد کرتا ہے۔ صفرا یا بائل جگر سے پتہ میں جا کر جمع ہوتا ہے اور چھوٹی آنت میں چکنائی والی اشیاء یعنی چربی اور مخصوص وٹامنز کے ہاضمے میں مدد دیتا ہے۔ پتے کے عوراض میں سب سے عام مرض پتھری بن جانا ہے۔

پتے کی پتھری کیسے بنتی ہے؟

اصل میں بائل پتے میں جمع ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں پانی وغیرہ بھی خارج کرتا ہے۔ جب اس میں سے پانی اور دوسرے اجزاء خارج ہو جائیں تو پھر یہی بائل پہلے ریت میں بدلتا ہے جو جمع ہو کر پتھری کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ پتے کی پتھری زیادہ تر کو لیسٹرول کی ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ پتھریاں، کیلشیم کاربونیٹ، کیلشیم پالمیٹیٹ اور پروٹین وغیرہ پر بھی مشتمل ہوتی ہیں۔ پتے کے بعض پتھر کیلشیم بلی روبینٹ پر بھی مشتمل ہوتے ہیں۔ یہ زیادہ تر چھوٹے، سیاہ رنگ کے اور تعداد میں کافی زیادہ ہوتے ہیں۔

پتے کی پتھری کیوں بنتی ہے؟

یوں تو پتے کی پتھری بننے کی متعدد د وجوہات ہوتی ہیں، لیکن سب سے عام سبب کاربوہائیڈریٹ خصوصاً چینی اورچکنائی والی غذاؤں کا زائد ستعمال، پتے کی سوزش اور موٹاپا ہے۔ اصل میں فربہ افراد کے جسم میں کولیسٹرول کی زائدمقدار پتے کی پتھری کا باعث بنتی ہے۔ اگر آپ کا جسمانی وزن زیادہ ہے تو جسم میں کولیسٹرول کی مقدار بھی زیادہ ہونے کا امکان ہوتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ پتے میں پتھری کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے، خاص طور پر توند نکلنے کی صورت میں نوے فیصد امکان پتے میں پتھری ہونے کا ہوتا ہے۔

’پتے کی پتھری سے زیادہ تر چالیس سال سے زیادہ عمر کی صحت مند، موٹی، سفید رنگت اور زیادہ بچوں والی عورتیں متاثر ہوتی ہیں۔ لیکن مردوں میں بھی یہ بیماری عام پائی جاتی ہے۔

طبی ماہرین کا ماننا ہے کہ ایسٹروجن پتے میں پتھری میں کردار ادا کرتا ہے، خواتین میں زیادہ مقدار میں پائے جانے والا یہ ہارمون صفرے یعنی بائل میں کولیسٹرول کی مقدار بڑھاتا ہے۔

اگر خاندان میں کسی کو اس مرض کی شکایت ہو، تو بھی قریبی رشتے داروں میں خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ہے۔ محققین کے خیال میں مخصوص جینز صفرے میں کولیسٹرول کی مقدار بڑھانے کا باعث بنتے ہیں۔

جب کہ عمر رسیدہ افراد میں بھی پتے کے عوارض سے متاثر ہونے کے امکانات زیادہ پائے جاتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ اگر جسمانی وزن کو بہت تیزی سے کم کیا جائے تو بھی پتے میں پتھری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

ذیابیطس: اگر یہ مرض لاحق ہو اور گردوں کو متاثر کر رہا ہو تو خون میں چربی کی ایک قسم بڑھنے کا امکان ہوتا ہے جو کہ پتے میں پتھری کا خطرہ بڑھاتی ہے۔

پتے میں پتھری کی علامات کیا کیا ہیں؟

پسلیوں کے نیچے، دائیں جانب پیٹ میں شدید درد مرض کی ابتدائی علامت ہے۔ یہ درد کبھی ہلکا اور کبھی شدید نوعیت کا ہوتا ہے اور بہت دکھن، چبھن کے ساتھ ہوتا ہے۔ چوں کہ پتے کے مرض میں نظام انہضام درست طریقے سے اپنے افعال انجام نہیں دیتا، تو اس کے نتیجے میں کچھ کھانے پینے سے متلی محسوس ہوتی ہے یاقے بھی ہو سکتی ہے۔ اکثر اوقات اس مسئلے کے شکار افراد میں چکنائی والی چیزوں کے استعمال کے بعد میں درد، قے اور متلی کا احساس ہوتا ہے۔ یہ

علامات کچھ دیر کے لیے رہنے کے بعد دوبارہ بہتر ہو جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ مندرجہ زیل علامات قابل ذکر ہیں۔

گہرے سانس لیتے ہوئے شدید درد۔
کمر یا دائیں کندھے میں تکلیف کا احساس۔

نیز، انفیکشن کی صورت میں بخار ہوجاتا ہے۔ پتے کی پتھری کے باعث بائل چھوٹی آنت تک نہیں پہنچ پاتا جس کے نتیجے میں بائل پتے میں جمع ہونے لگتا ہے جس سے پریشر اور سوزش پتے کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ انفیکشن کا باعث بھی بنتی ہے۔ علاوہ ازیں، پتھری کی وجہ سے پتے میں پیپ بھی پڑسکتی ہے، جس کی وجہ سے پیٹ میں ناقابل برداشت درد ہوتا ہے اور مریض کو ایمرجینسی کی حالت میں اسپتال لے جانا پڑتا ہے۔ دیگر علامات میں لو بلڈپریشر، ہر تھوڑی دیر بعد حاجت محسوس ہونا، بد ہضمی، گیسٹرک کے مسائل، کھانے کے بعد پیٹ کا پھول جانا، قبض، سر چکرانا، خون کی کمی، جلد پر دانے، پھوڑے اور پھنسیاں نکل آنا وغیرہ شامل ہیں۔ بعض کیسز میں یرقان، پتے کی پتھری یاپتے کی کسی دوسری بیماری کو ظاہرکرتا ہے۔

اگر اس پتھری کا حجم بڑھ جائے، تو آنت کا منہ بند ہوجاتا ہے، لیکن ایسا کم ہی کیسز میں ہوتا ہے۔ تاہم، یہ سبب جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ اور اگر خدانخواستہ پتہ پھٹ جائے اور مریض کو احساس بھی نہ ہو تو پیٹ میں خطرناک قسم کا انفیکشن پھیل جاتا ہے۔ اس کے امکانات پینتالیس سال سے زائد عمر کے افراد میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔ کچھ کیسز میں پتے کا سرطان بھی ہو سکتا ہے، جس کی بنیادی وجہ تاخیر سے علاج یا علاج میں کوتاہی ہے۔

پتے کی پتھری سے بچا کیسے جائے؟

موٹاپا سو بیماریوں کی جڑ ہے۔ ہمیشہ بھوک رکھ کر کھائیں۔ زیادہ کھانے سے بانسان ناصرف موٹا ہوتا ہے بلکہ بیماریوں کا بھی آسانی سے شکار ہو سکتا ہے۔ اس لیے صحت مند رہنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اپنے آپ کو سمارٹ اور چاق و چوبند رکھے جس کے لیے سادہ غذا کا استعمال بنیادی شرط ہے۔

پتے کی پتھری کے شکار مریضوں کی غذا کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔

مرغن غذاؤں سے پرہیز کریں زیادہگھی اور چربی والی اشیا سے مکمل پرہیز کریں۔ کولیسٹرول بڑھانے والی تمام غذاؤں مثلاً چاکلیٹ، انڈے، کریم، پنیر، مغز، گردے کپورے، سری پائے سے پرہیز کریں۔ سادہ غذا کے ساتھ روزانہ کی ہلکی ورزش کو معمول بنائیں خاص طور پر جو مریض موٹاپے کے باعث اس مرض کا شکار ہوں، وہ چربی اور کولیسٹرول بڑھانے والی غذائیں مثلاً انڈے، مکھن، گوشت وغیرہ کا استعمال کم سے کم کریں۔ چقندر، کھیرا اور گاجر تینوں کا تازہ جوس پئیں کہ اس سے پتے کی قدرتی طور پر صفائی ہوجاتی ہے۔

فائبر سے بھرپور غذا کا استعمال کریں جبکہ زیتون اور مچھلی کا تیل بھی کھائیں، جنک فوڈ کھانے سے گریز کریں۔

پتے میں پتھری کی تشخیص اور تصدیق کیسے ہوتی ہے؟

بیماری کی علامات ہونے کی صورت میں پیٹ کے ایکسرے اور الٹرا ساؤنڈ وغیرہ سے پتہ میں پتھری کی موجودگی یا غیر موجودگی کا پتہ لگایا جاتا ہے۔ اوپر بیان کی گئی علامات کی صورت میں ڈاکٹر چند خون کے ٹیسٹ تجویز کرے گا اور ساتھ میں ایک الٹراساونڈ یا سی۔ ٹی یا ایم۔ آر۔ آئی اس مرض کی تشخیص کو کنفرم کر دے گا۔

علاج کیا ہے؟

بسا اوقات یہ اٹیک محض اینٹی بائیوٹک اور چکنائی سے پرہیز کے ذریعے بالکل ٹھیک ہو جاتا ہے اور سرجری کی نوبت پیش نہیں آتی مگر اگر یہ علامات دیرپا ہوں اور شدت اختیار کر لیں تو سرجری کرنا لازمی ہو جاتا ہے۔ سرجری کے بعد چکنائی والی اشیا سے پرہیز انتہائی اہم ہے۔ جب پتھری نالی میں پھنس جائے تو سخت درد کے ساتھ بخار ہو جاتا ہے اور پتے کی سوزش کا حملہ ہو جاتا ہے۔ جس کے لیے مختلف دوائیں استعمال کی جاتی ہیں جن میں اینٹی بائیوٹکس دوائیں، درد دور کرنے والی دوائیں اورسوجن کم کرنے و الی دوائیں شامل ہیں۔ مگردوائیں ہمیشہ ڈاکٹر کے مشورہ سے لیں۔

پتے میں ”پتھر“ جمع ہوجائیں تو اس کا دیرپا علاج سرجری ہے کیونکہ ”پتھریوں“ کی وجہ سے درد کے اچانک حملہ میں پتے کے غیر معمولی سوجنے سے اس کے پھٹنے کی وجہ سے پیٹ میں زہر پھیل کر موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ سو جب علامات شدت اختیار کر لیں اور معالج سرجری تجویز کرے، تو ہرگز تاخیر نہ کریں۔ دیکھا گیا ہے کہ اکثر مریض سرجری کروانے سے گھبراتے ہیں، تو یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ پتہ نکلنے کے بعد بھی جگر میں بننے والا سیال مادہ آنتوں میں جاکر اپنے افعال باآسانی انجام دیتا ہے۔ آج کل لیپروسکوپک سرجری کی سہولت کی وجہ سے پیٹ میں ایک دو انچ کے چھوٹے سوراخ کر کے لیپرو سکوپ کے ذریعے یا تو پتے کو باہر نکال لیتے ہیں یا پھر پتھری کو شعاعوں کے ذریعے بھی توڑا جا سکتا ہے اور آپریشن کے بعد مریض اسی دن گھر واپس جا سکتا ہے۔