توقعات کیوں تکلیف دیتی ہیں؟
ڈاکٹر سید اکرام
آپ نے کسی کی مدد کی اور وقت پڑنے پر اس نے منہ پھیر لیا؟
کسی بہت قریبی نے فریبی کا روپ دھار لیا؟
آپ نے کسی پر بھروسا کیا اور اس نے آپ کے اعتماد کو ہی توڑ ڈالا؟
اور اب آپ تکلیف میں ہیں، شاکڈ ہیں، مایوس ہیں۔
یہ درد کس نے آپ کو دیا؟
ان لوگوں نے؟ دوسروں نے؟
حقیقت میں آپ کا دل کسی اور نے نہیں آپ نے خود توڑا۔
آپ کی توقعات۔ آپ کی ایکسپیکٹیشنز نے توڑا۔
یاد رکھیں، اس دنیا میں کوئی بھی آپ کی توقعات پوری کرنے کے لئے نہیں جیتا ہے، دوست بھی نہیں، خاندان بھی نہیں۔
یہاں کا قانون ہی یہی ہے۔ اگر پتھر اوپر ہوا میں اچھالیں گے، وہ واپس سیدھا آپ کے منہ پر ہی آ کر لگے گا۔
دوسروں سے توقعات وابستہ کر لینے کا سیدھا سیدھا مطلب ہی یہ ہے کہ آپ اپنے جذبات کا ریموٹ کنٹرول دوسروں کے ہاتھ میں دے رہے ہیں۔
زندگی ایک سفر ہے اور توقعات۔ ایکسپیکٹیشنز اس سفر کا سامان ہوتی ہیں۔ جتنا زیادہ سامان ہو گا، اپ کی ٹینشن اتنی ہی بڑھے گی، آپ کا سفر بوجھ کی وجہ سے اتنا ہی آہستہ اور بوجھل ہوتا جائے گا۔
اور پھر ہر توقع بے چینی پیدا کرتی ہے اور آخر کار مایوسی میں بدل جاتی ہے۔
اور ایک دفعہ آپ مایوسی کے کبھی نہ ختم ہونے والے چکر میں داخل ہو جائیں پھر منفی ذہنیت اور زہریلی سوچوں کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔
لیکن کیا توقع رکھنا نارمل نہیں ہوتا؟
کیا یہ انسانی فطرت کے خلاف ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ غیر حقیقی، ان رئیلیسٹک توقع رکھنا فطرت کے خلاف ہے۔
اور غیر حقیقی توقعات کیا ہوتی ہیں؟
یہ وہ ایکسپیکٹیشنز ہوتی ہیں جو ہم اپنے ہی طرح کے دوسرے لوگوں، دوسری مخلوقات اور رشتوں سے رکھتے ہیں جو خود پر فیکٹ نہیں ہوتے، جو ہم سے، اور ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔
جانتے ہیں ساری غیر حقیقی توقعات۔ ان رئیلسٹک ایکسپیکٹیشنز کا آغاز ایک خود غرض لفظ سے ہوتا ہے اور وہ لفظ ہے میں۔ مجھے، میرے!
میرے ساتھ ایسا سلوک ہونا چاہیے۔
میری ایسی عزت ہونی چاہیے۔
میرے ساتھ ایسی محبت ہونی چاہیے۔
میں اس قابل تو نہیں تھا۔
مجھے اور زیادہ چاہیے۔
مجھے پسند ہے۔
مجھے خواہش ہے۔
میں چاہتی ہوں۔
میں محبت کرتا ہوں
میں نفرت کرتی ہوں۔
سو۔ حل کیا ہے؟
خود کو اس ”میں“ سے الگ کرنا ہو گا۔
خود کو ہر دنیاوی شے سے علیحدہ کرنا ہوگا۔
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سارے رشتے توڑ کر تنہا ہو جائیں، بلکہ خود کو کسی چیز کا، کسی بھی رشتے کا عادی نہ بنائیں۔ رابطہ سب سے رکھیں، لیکن جڑ کر کسی کے ساتھ بھی نہ رہیں۔
Connected with everything
Attached with nothing.
اس بات کو گرہ میں باندھ لیں کہ دوسرے ہی ہمیشہ غلط نہیں ہوتے۔ کبھی کبھی وہ بس ہماری توقعات سے مختلف ہوتے ہیں۔
سو آج ہی اپنے سفر کا آغاز کریں۔ یہ سفر ہے۔ میں۔ سے تم تک کا۔
ہم نے ہمیشہ دوسروں سے صرف لینا ہی سیکھا ہوتا ہے۔
کبھی لو اور دو کے بجائے صرف دینے کی نیت بھی کریں۔ کوشش تو کریں۔
کیونکہ جتنا آپ دوسروں کو دیں گے، اتنا ہی زیادہ سکون میں ہوں گے، اطمینان میں ہوں گے۔
جب آپ کو عزت چاہیے ہوتی ہے، ہو سکتا ہے دوسرے آپ کو یہ نہ دیں، لیکن آپ تو دوسروں کو عزت دے سکتے ہیں۔
جب آپ کو محبت چاہیے ہوتی ہے، ہو سکتا ہے دوسرے لوگ آپ کو محبت نہ دیں لیکن آپ کو محبت کرنے سے کون روک سکتا ہے؟
جب آپ کو کام پڑتا ہے تو ضروری نہیں کہ دوسرے وقت پر آپ کا ہر کام کر دیں لیکن آپ کو دوسروں کے کام آنے سے کون روک سکتا ہے؟
آخر ان لوگوں کی محتاجی کیوں جو خود بھی کسی دوسرے کے محتاج ہیں۔
مخلوق کے بجائے خالق کی محتاجی کیوں نہیں؟
اس سے توقع کیوں نہ رکھیں جو خود کسی کا محتاج نہیں۔
جو مخلوق نہیں بلکہ خالق ہے۔
جو ضرورت مند نہیں بلکہ بے نیاز ہے؟
اسی کو رئیلیسٹک ایکسپیکٹیشن کہتے ہیں۔ حقیقی توقع۔
اپنی نیت ضرور اچھی رکھیں۔ کوشش پوری کریں لیکن بدلے میں نتیجے کی توقع اپنے جیسی مخلوق کے بجائے اس خالق سے رکھیں جس نے آپ کو اور سب دوسروں کو پیدا کیا ہے۔
کیونکہ یاد رکھیں، آپ سے آپ کی نیت کا سوال ہو گا، آپ اپنی کوشش کی ذمہ دار ہیں لیکن نتیجے کے نہیں۔
نتیجہ خود کے ہاتھ میں نہیں خدا کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔
لیکن نتیجے سے پہلے یہ مت پوچھیں کہ خدا آپ کے لئے کیا کر سکتا ہے بلکہ
یہ بتائیں کہ خود آپ۔ خدا کے لئے کیا کر سکتے ہیں۔
اور پھر خود کو خدا کی رضا کے۔ اس کی مرضی کے سپرد کر دیں۔
توقعات رکھنا چھوڑ دیں۔ قبول کرنا شروع کر دیں۔
کیونکہ توقع اکثر آنسوؤں پر ختم ہوتی ہے۔
اور قبولیت مسکراہٹ سے شروع ہوتی ہے۔