Dr. Syed Ikram

ڈاکٹر سید اکرام

آپ کی قدر و قیمت کیا ہے؟

اس زندگی کی کیا قدر ہے؟ ایک بیٹی نے باپ سے پوچھا۔
اس کے جواب میں باپ نے بیٹی کو ایک پتھر دیا اور کہا کہ جاؤ اور اس کو بازار میں فروخت کر آؤ۔ اگر کوئی قیمت پوچھے تو جواب میں خاموش رہنا اور محض اپنے ہاتھ کی دو انگلیاں اٹھا دینا۔

وہ پتھر لے کر بازار پہنچی جہاں اسے ایک عورت ملی جس نے لڑکی سے پتھر کی قیمت پوچھی۔
جواب میں لڑکی خاموش رہی اور محض دو انگلیاں اٹھا دیں۔
دو روپے؟ ”عورت بولی۔“ ٹھیک ہے، مجھے یہ دو روپے میں دے دو۔ اسے میں اپنے باغ میں لگاؤں ”
”گی۔
لڑکی پتھر واپس لے کر اپنے گھر آ گئی اور اپنے باپ کو تفصیل بتائی۔
”اب اسے عجائب خانے لے کر جاؤ۔ اور کوئی قیمت پوچھے تو جواب میں کچھ مت کہنا فقط اپنے ہاتھ کی دو انگلیاں اوپر اٹھا دینا۔“ باپ نے ہدایت کی۔

لڑکی نے ایسا ہی کیا۔ عجائب خانے میں ایک شخص نے قیمت پوچھی اور جواب میں لڑکی نے دو انگلیاں اوپر کر دیں۔

”دو سو روپے؟“ اس شخص نے پوچھا۔ ”پھر مجھے یہ پتھر دو سو روپے میں دے دو۔“
لڑکی کو یقین نہ آیا اور بھاگتی ہوئی واپس اپنے گھر میں پہنچی اور سارا ماجرا اپنے باپ کو سنایا۔
بیٹی، اب اس پتھر کو ایک آخری جگہ اور لے جاؤ۔ ”باپ نے کہا۔“
کہاں بابا؟

جواہرات کی دکان میں۔ اور وہاں سیدھی دکان کے مالک یعنی جوہری کے پاس جانا اور قیمت پوچھے تو دو انگلیاں ہی اٹھانا۔

بیٹی نے ایسا ہی کیا۔

یہ پتھر تمھیں کہاں سے ملا؟ ”جوہری نے حیران ہو کر پوچھا۔“ یہ تو دنیا کا بہت ہی نادر و نایاب پتھر ہے۔ مجھے یہ ہر قیمت پر خریدنا ہے، تم کتنے پیسے لو گی؟

جواب میں لڑکی نے دوبارہ دو انگلیاں ہی اٹھائیں۔
”ٹھیک ہے۔ میں یہ دو لاکھ روپے میں خرید رہا ہوں۔“

لڑکی کو کچھ سمجھ نہ آیا اور واپس بھاگتی ہوئی باپ کے پاس پہنچی اور سارا احوال کہہ سنایا ”سو تمھیں اب زندگی کی قدر و قیمت معلوم ہو گئی؟“ باپ نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

” آپ کہاں سے آتے ہیں، آپ کی جلد کا رنگ کیسا ہے، منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوتے ہیں
یا جھونپڑی میں پرورش پاتے ہیں، ان سب باتوں سے آپ کی قدر نہیں معلوم ہوتی۔

آپ کی قدر و قیمت اس بات سے بنتی ہے کہ آپ اپنے آپ کو کہاں، کس جگہ اور کن لوگوں کے درمیان رکھتے ہیں۔ اور خود کو کیسے لے کر چلتے ہیں۔

ٰٰٰیہ حقیقت ہے کہ ہم میں سے اکثر اپنی پوری زندگی یہ سوچتے ہوئے گزار دیتے ہیں کہ شاید ہماری وقعت ایک دو روپے والے پتھر سے زیادہ نہیں۔ یا پھر ان لوگوں کے درمیان رہتے ہیں جو ہمیں دو ٹکے سے زیادہ کا نہیں سمجھتے۔ لیکن جو بات ہم میں سے اکثر نہیں جانتے وہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کے اندر ایک ہیرا چھپا ہوتا ہے۔ اور وہ ہے ہمارا ٹیلنٹ، ہماری صلاحیتیں، ہماری قابلیت، ہمارا ہنر۔ اب یہ ہماری اپنی دانست، عقل اور مرضی پر منحصر ہوتا ہے کہ اپنے اس ہیرے کو ایک سستے سے بازار میں رکھ دیں یا پھر اسے جوہری کے پاس لے جائیں جو ہمارے اندر چھپے اس ہیرے کا کھوج لگا سکیں، اسے پہچان سکیں اور اس کی صحیح قدر کا اندازہ لگا سکیں۔

بالکل اسی طرح ہم خود بھی دوسرے لوگوں میں موجود ہیرے کو شناخت کر سکتے ہیں، اس کی قدر جان سکتے ہیں۔

خود کو دوسروں کی آنکھوں اور زبانوں سے پہلے اپنی عقل اور حکمت سے پرکھیں۔ جب ایک دفعہ آپ اپنی قدر جان لیتے ہیں تو پھر ایسے لوگوں کی شناخت بھی آسان ہو جاتی ہے جو آپ کی قدر نہیں جانتے چاہے معاملہ تعلیم کا ہو، کاروبار کا، ملازمت کا یا پھر ازدواج کا۔ سو اپنے اطراف میں موجود لوگوں کا انتخاب عقل مندی سے کریں۔ جذبات کے دھارے میں بہہ کر یا جلد بازی کا شکار ہو کر خود کو غلط لوگوں کے سپرد نہ کریں۔ ساری عمر کے پچھتاوے سے بہتر ہے کہ ایک دفعہ اچھی طرح سوچ سمجھ کر اور مشورہ کر کے فیصلہ کریں اور یہ ایک بات آپ کی زندگی آباد یا برباد کرنے

کا سبب بن سکتی ہے۔ اور یاد رکھیں، یہ فیصلہ صرف آپ ہی کو کرنا ہوتا ہے۔
باقی ہر شے کی قدر تھی اس کو
رائیگاں ذات بس ہماری ٹھہری