میاں بیوی اختلافات کا حل: جذباتی ذہانت
ڈاکٹر سید اکرام
اکثر میڈیکل پریکٹس میں ایسے جوڑوں سے واسطہ پڑتا ہے جو اپنی خانگی ذہنی و نفسیاتی الجھنیں بھی بتاتے ہیں اور آپس میں روز بروز ہونے والے لڑائی جھگڑے اور ان سے ہونے والے جسمانی، طبی اور نفسیاتی نقصانات جیسے ہائی بلڈ پریشر، انزائٹی اور ڈپریشن وغیرہ کا بھی شکار ہوتے ہیں۔ میں ان سے یہ کہتا ہوں کہ آپ کی علامات کے لئے دوا تو تجویز کی جا سکتی ہے لیکن یہ روز روز کے جھگڑے اس وقت تک حل نہیں ہوں گے جب تک آپ ان کے لئے جذباتی ذہانت، جسے انگریزی میں ایموشنل انٹیلی جنس کہتے ہیں، کو بروئے کار نہیں لائیں گے۔
جذباتی ذہانت یا ایموشنل انٹیلی جنس ایک کشیر المعنیٰ لفظ ہے لیکن آسان لفظوں میں یو ں سمجھ لیجیے کہ اپنے جذبات کو سمجھنے، انھیں صحیح طور پر بر وقت استعمال کرنے اور دوسروں کے مشتعل کرنے پر اپنی انا کے ہاتھوں مجبور ہو کر فوراً ٓ رد عمل دینے کے بجائے خاموشی اور آگے ہونے والے مضمرات کو مد نظر رکھتے ہوئے آگے بڑھنے یا پیچھے ہٹنے کا نام ہے۔
میاں بیوی کا رشتہ ایک ایسا رشتہ ہے جس کے بارے میں ازراہ مذاق کہا جاتا ہے کہ یہ دو ایسے دشمن ہوتے ہیں جو پورا دن ایک دوسرے سے جنگ کے بعد تھک کر روزانہ ایک ہی مورچے پر سوتے ہیں۔ یہ تو ایکمذاق کی بات تھی لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اس رشتے میں بہت سے نشیب و فراز آتے ہیں، تلخیاں بھی ہوتی ہیں، لڑائیاں بھی ہوتی ہیں، اختلافات بھی ہوتے ہیں لیکن مستقل جدائی نہیں ہونی چاہیے، تا وقتیکہ آخری حد بھی گزر جائے۔ اب آٓپ پوچھ سکتے ہیں کہ بھئی کیوں اپنی زندگی کو مستقل جہنم بنا کر رکھا جائے، کیوں ظلم برداشت کیا جائے، کیوں بد تمیزی بر داشت کی جائے؟
نہیں، بالکل نہیں، میں آپ کو خاموشی سے ظلم برداشت کرنے کو ہرگز نہیں کہہ رہا، احتجاج آپ کا حق ہے۔ بات صرف یہ ہے کہ اپنی آواز اٹھایئے، ضرور اٹھایئے لیکن اس وقت جب اس کا صحیح وقت ہو، صحیح مقام ہو، تدبر سے، حکمت سے، پلاننگ سے۔ مجھے یہ کہنے دیجئے کہ آپ اور آپ کے شریک حیات کے درمیان کتنی ہی اچھی انڈر اسٹینڈنگ کیوں نہ ہو، آپ دونوں کے درمیان ذہنی پختگی، مینٹل میچیوریٹی، شعور، سینس، کبھی بھی ایک جیسا نہیں ہو سکتا، برابر نہیں ہو سکتا۔
سو دونوں میں سے جو ذہنی طور پر کم میچیور ہے۔ جس کی ذہنی سطح کم ہے، عام طور پر پہلے غلطی وہ کرے گا، زیادتی اسی کی طرف سے ہوگی۔ اب چاہے وہ مرد ہو یا عورت، اور عین ممکن ہے۔ اسی نا پختگی کی وجہ سے وہ الزام محض آپ ہی کو دے۔ دوسروں سے آپ کی شکایت کرے کیونکہ وہ بنیاددی طور پر ایک منفی ذہنینت یا نیگیٹو مینٹالیٹی کے وجود میں تبدیل ہو چکا ہے یا ہو چکی ہے۔ سو اسے آٓپ میں صرف خامیاں ہی خا میاں نظر آئیں گی۔ اب آپ کو کیا کرنا ہے۔ اگر آپ اپنی انا پر چلیں گے، اپنے نفس کو فالو کریں گے تو ممکن ہے کہ آپ بھی اسی کی کم تر لیول پر آٓجائیں۔ بری زبان کا جواب اسی زبان میں دیں۔ گالی کا جواب گالی سے دیں۔ اور اسی جواب الجواب میں پورا گھر جہنم بن جائے۔ آپ کے بچے متاثر ہوں گے۔ خاندان ٹوٹ جائے گا۔
یاد رکھیں کبھی بھی کوئی اختلاف اگر لڑائی جھگڑے کی صورت اختیار کر جائے تو اس میں دونوں فریقین قصور وار ہوتے ہیں۔ ایک فریق عمل کا، چنگاری بھڑکانے کا اور دوسرا فریق رد عمل کا، اس شعلے کو ہوا دینے کا۔
لیکن اگر آپ اس مسئلے کا دیرپا حل چاہتے ہیں، تو پھر صبر کا دامن تھامنا ہو گا۔ اگر آپ میں عقل اپنے شریک حیات سے زیادہ ہے، اگر آپ کی ذہنی سطح اس سے بلند ہے، اگر آپ میں نفسیاتی پختگی اس سے زیادہ ہے۔ تو مجھے کہنے دیجئے کہ پھر قدرت نے زیادہ ذمہ داری بھی آپ کے کاندھوں پر ہی ڈالی ہے۔ آپ کو اپنے بڑے اخلاق والے، بری زبان والے شریک حیات کو ایسے ہی سمجھنا ہو گا جیسے ایک غصے والے جانور سے ڈیل کیا جاتا ہے۔ اسے گولی یا ہنٹر نہیں مارتے۔ بلکہ صحیح وقت پر، صحیح مقام پر اس کے پر سکون ہونے کا انتظار کرتے ہیں، اسے ٹرین کرتے ہیں، اسے سدھاتے ہیں۔ اس کی توجہ اس کی پسندیدہ چیز کی طرف دلاتے ہیں اور تب اپنی ترکیب آزماتے ہیں۔
اگر آپ کی عقل زیادہ ہے، تو پھر گالی کا جواب خاموشی ہے۔ بد اخلاقی کا جواب صبر ہے۔ اچھائی کا جواب شکر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب انسان کی عقل پختہ ہو جاتی ہے تو اس کی باتیں کم ہو جاتی ہیں اور خاموشی بڑھ جاتی ہے۔ آٓج ہمارے معاشرے میں ہر دوسرے خاندان میں بڑھتی ہوئی علیحدگی اور طلاق کی وجہ یہی ہے کہ دونوں فریقین برداشت سے عاری ہو چکے ہیں۔ دونوں اپنے آپ کو اپنی جگہ صحیح سمجھتے ہیں۔ اور ممکن ہے ایسا ہو بھی۔ ایک مثال لیں۔
انگریزی گنتی کے عدد نمبر سکس کو جب میں اپنی طرف سے دیکھتا ہوں تو وہ مجھے سکس ہی نظر آئے گا۔ لیکن میرے سامنے بیٹھے ہوئے شخص کو وہ نمبر نائن نظر آئے گا۔ اس میں میری یا اس کی غلطی نہیں، ہم دونوں اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہیں، بات صرف پرسیپشن کی ہے، یہ سمجھنے کی ہے کہ کیا وجہ ہے کہ میرا شریک حیات ایسا ہے یا ایسی ہے۔ کیا وہ ایسا جان بوجھ کر کرتا ہے یا کرتی ہے۔ یا اس کی تربیت، اس کے گھر کا ماحول، اس کی تربیت میں ایسے عوامل تھے جن کی بنا پر اس میں یہ بری عادتیں پیدا ہو گئیں۔ ہو سکتا ہے اگر آپ اس کے بیک گراؤنڈ پر، اس کو برا بنانے والے اسباب پر غور کریں تو آپ کا غصہ اس کے لئے ہمدردی میں بدل جائے۔
آٓخر فرعون کے ساتھ حضرت آسیہ جیسی مومنہ بیوی کیوں تھیں اور انھوں نے کیسے گزارہ کیا۔ آخر حضرت لوط اور حضرت نوح نے نا فرمان بیوی کے ساتھ آخر تک نصیحت کا دامن کیوں نہیں چھوڑا۔ اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ ہمارے شریک حیات ہمارا امتحان ہیں۔ اور ان کے سامنے ایک مقصد تھا۔ الہی ٰ مقصد۔ سو آپ کے سامنے بھی اگر ایک اعلی اور ارفع مقصد ہو گا، جیسے ا پنی آ ٓنے والی نسلوں کی تربیت، تو یقیناً خدا آپ کی مدد کرے گا۔
سو لڑائی کے وقت خاموشی، کان بند کرنا۔ سنی ان سنی کرنا، ہر چیز کودل پر مت لے جانا بہت ضروری ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں اس کی جلی کٹی باتیں اور طعنے سن کر آپ خود پر قابو نہیں رکھ سکیں گے تو اپنی جگہ
تبدیل کریں۔ اس وقت وہاں سے نکل جائیں۔ یاد رکھیں، عین ممکن ہے خدا نے، آپ کے خالق نے، آپ کی زندگی کا سب سے بڑا امتحان آپ کے لائف پارٹنر، آپ کے شریک حیات کی صورت میں ہی رکھا ہو۔ تو کیا امتحان اگر مشکل ہو تو آپ پیپر کینسل کر کے امتحانی مرکز چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں؟ یا صبر سے، برداشت سے، اپنے ذہن پر زور ڈال کر پہلے پورے پرچے کا مطالعہ کرتے ہیں۔ پھر آسان سوال جو آتے ہیں، پہلے ان کو حل کرتے ہیں، مشکل سوال آخر کے لئے چھوڑ دیتے ہیں، اور پھر آدھا وقت گزرنے کے بعد ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا پرچہ، ہمارا امتحان اتنا خراب بھی نہیں تھا جتنا شروع میں لگ رہا تھا۔
اس کے بر عکس اگر آپ اپنے امتحان سے منہ موڑیں گے۔ تو پھر یاد رکھئے، عین ممکن ہے، اس سے کہیں زیادہ مشکل امتحان، اس سے کہیں زیادہ سخت آزمائش، بیماری کی شکل میں، بے روزگاری کی شکل میں، مالی نقصان کی شکل میں، اولاد کی شکل میں۔ ہو سکتا ہے آپ کی منتظر ہوکیونکہ یہ دنیا اور اس کی زندگی سکون کی جگہ نہیں، آرام کی جگہ نہیں، امتحان کی جگہ ہے۔ ایک آزمائش سے بچیں گے، ایک سے امتحان سے بھاگیں گے، اس سے اور بھی بڑا سامنے ہو گا۔ سو بھاگنا نہیں ہے۔ ڈرنا نہیں ہے، لڑنا ہے۔ لیکن اپنے شریک حیات سے نہیں بلکہ اپنے نفس سے، اپنی انا سے۔ اپنی عقل کے ہتھیار کو استعمال کرتے ہوئے!
کوشش کریں کہ، ماضی میں نہ رہیں۔ اس سے سبق سیکھ کر آگے بڑھ جائیں۔ اسی طرح مسقتبل کی منصوبہ بندی ضرور کریں لیکن اس میں رہیں نہیں۔ ورنہ ایسا ہو گیا تو ویسا ہو جائے گا اور ویسا ہو گیا تو یہ ہو جائے گا کا خوف ہم سے سکون چھین لے گا اور ہم کو ذہنی مریض بنا دے گا۔ سکون ملتا ہے، حال میں۔ ابھی اس لمحے میں۔ اس وقت میں۔ اور یہ ایک تحفہ ہے۔ اسی لئے تو اسے انگریزی میں پریزنٹ بھی کہتے ہیں۔