خوف ہمارے ساتھ کیا کرتا ہے اور اس کا علاج
ڈاکٹر سید اکرام
آپ کو سب سے زیادہ خوف کس کا ہے؟ موت کا؟ لوگ کیا کہیں گے؟ ، اس کا؟ ٹھکرا دیے جانے کا؟ مقابلے کا؟ توہین اور ذلت کا؟ مالی نقصان کا؟ گھاٹے کا؟ ناکامی کا؟ کیڑے مکوڑوں کا؟
یاد رکھیے۔ آپ کی تخلیقی صلاحیت کا سب سے بڑا دشمن، آپ کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ خوف ہے۔ یہ ڈر ہے
خوف کیا ہوتا ہے؟ یہ خوف فرق ہے مثبت اور منفی لوگوں کے بیچ۔ نیگیٹیویٹی اور پازیٹیویٹی کے درمیان۔ یہ ڈر نیگیٹو لوگوں کو مزید کمزور اور خوفزدہ کر دیتا ہے۔ لیکن مضبوط لوگ وہی ہوتے ہیں جو اپنے خوف پر قابو پا لیں اور زندگی میں مناسب رسک لے سکیں۔
یاد رکھیں خوف اور خطرے میں فرق ہوتا ہے۔ خطرہ اصل میں ہوتا ہے۔ حقیقی ہوتا ہے۔
لیکن خوف صرف خیالی ہوتا ہے۔ ہمارے تصور میں ہوتا ہے۔ ہمارے اکثر خوف اور ڈر کی بنیاد ”اگر“ سے پڑتی ہے۔ اگر ایسا ہو گیا تو کیا ہو گا۔ اگر ویسا ہو گیا تو کیا ہو گا۔
جب کسی چھوٹی چیز کا سایہ اس سے کئی گنا بڑا نظر آئے، اسی کو خوف کہتے ہیں۔ سو خوف پیدا کس چیز سے ہوتا ہے؟ اس کا جواب ہے۔ دنیا کی محبت!
جتنا زیادہ آپ اس دنیا اور اس کے چیزوں اور رشتوں سے اپنے آپ کو جوڑیں گے، اتنا ہی زیادہ آپ کے خوف بڑھیں گے۔
لیکن یہ خوف آپ کے ساتھ کرتا کیا ہے؟ یہ ہم کو قابو میں کر لیتا ہے۔ آپ کی ترقی روک دیتا ہے۔ اور اسی خوف کی وجہ سے آپ اپنے بہت سے خواب کبھی پورے نہیں کر پاتے۔ ہمارے خوف ہمارے لئے ہماری حد، ہماری قید بن جاتے ہیں
یہ خوف آپ کے آئیڈیاز کو کبھی پریکٹیکل نہیں ہونے دیتا۔ آپ کی توانائی ختم کر دیتا ہے۔ آپ کی صلاحیتوں کو مفلوج کر دیتا ہے۔
سچ پوچھیں تو خوف ناکامی سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ کیونکہ ناکام ہونے سے پہلے اپ کم از کم کوشش تو کرتے ہیں۔ لیکن ایک خوفزدہ انسان تو کوشش بھی نہیں کرتا۔
اصل میں جس غار میں ہمیں ہمارا خوف داخل ہی نہیں ہونے دیتا۔ اسی غار میں ہماری کامیابی کا خزانہ چھپا ہوتا ہے۔
سو ”کیا ہو گا“ کا خوف کہیں آپ کو کچھ کرنے سے ہی نہ روک دے۔ یاد رکھیے، اکثر مشکل اور دشوار گزار راستوں سے گزر کر ہی آپ سب سے خوبصورت منزلوں پر پہنچ پاتے ہیں۔
ہم اپنے ڈر پر کیسے قابو پا سکتے ہیں؟
اس کا سب سے آسان حل یہ ہے کہ مخلوق کے خوف کو بدل لیں اپنے خالق کے خوف سے۔ جی ہاں، خدائی کے خوف کو خدا کے خوف سے بدل لیں۔ دوسری مخلوق سے ڈرنے کا آخر سوال ہی کیا ہے جب آپ خود دنیا کی بہترین مخلوق ہیں۔ کسی سے کم نہیں۔
خود ایک مخلوق ہو کر دوسری مخلوق سے ڈرنا ذلت ہے۔ لیکن خالق سے ڈرنے میں، خدا سے ڈرنے میں عزت ہے۔ کیونکہ جب انسان صرفٖ اپنے خدا سے ڈرتا ہے تو خدا خود دوسری چیزوں سے انسان کو رسوا نہیں ہونا دیتا۔ خدا کا خوف آپ کو کبھی نقصان نہیں پہنچاتا صرف فائدے ہی فائدے دیتا ہے، پناہ دیتا ہے، امان دیتا ہے
لیکن جب آپ دوسروں سے ڈرتے ہیں تو خدا بھی آپ کو اس خوف کے ساتھ تنہا چھوڑ دیتا ہے جو آہستہ آہستہ آپ پر قبضہ جما لیتے ہیں۔
اسی لئے تو کہتے ہیں جو خدا سے ڈرتا ہے ، وہ کسی سے نہیں ڈرتا اور جو خدا سے نہیں ڈرتا وہ سب سے ڈرتا ہے۔
خدا کا خوف خوفناک نہیں۔ خوبصورت ہوتا ہے۔ میٹھا ہوتا ہے۔ انسان کو آرام دیتا ہے، سکون دیتا ہے۔ آپ کو گلے لگاتا ہے۔ کیونکہ خدا عادل ہے، کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ خدا کا خوف خدا سے عشق کا نتیجہ ہوتا ہے۔ کیونکہ اپنے خالق سے، اپنے محبوب کی جدائی کا تصور ہی خوفناک ہوتا ہے۔
خدا سے خوف کھانے کا مطلب ہے کہ ہمارا کیا ہو گا اگر اس نے، ہمارے محبوب نے ہمیں ٹھکرا دیا۔ سچ ہی تو کہتے ہیں، جس نے اسے پا لیا اس نے کیا کھویا۔ اور جس نے اسے ہی کھو دیا، اس نے کیا پایا۔ اس کو پا لینا ہی جنت ہے، اس کو کھو دینا جہنم ہے۔
اور یہ خوف بھی کیسا انوکھا خوف ہے۔ جب آپ دوسروں سے ڈرتے ہیں تو ان سے دور ہونا چاہتے ہیں۔ لیکن جب صرف اور صرف خدا سے ڈرتے ہیں تو اس سے قریب ہونا چاہتے ہیں۔