کورونا وائرس کے خلاف مدافعت (امیونٹی) بڑھانے کے ثابت شدہ طریق
ڈاکٹر سید اکرام
آج کا اہم سوال یہ ہے کہ کورونا وائرس کے خلاف امیونٹی کیسے بڑھائی جائے۔ کورونا وائرس ایک ایسا چیلنج ہے جس سے نمٹنے کے لئے دنیاوی وسائل ابھی تک بہت محدود ہیں۔ نہ ہی کوئی یقینی دوا دریافت ہو سکی ہے اور نہ ہی بچاؤ کے لئے ویکسین۔ ان حالات میں احتیاط اور اپنا اندورنی دفاع مضبوط بنانا ہی واحد حل ہے۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے جسے آپ دو محاذوں پر لڑتے ہیں۔ ایک ہے بیرونی محاذ اور دوسرا اندرونی محاذ۔
باہر کی جنگ وہ ہوتی ہے جس میں آپ کورونا کا مقابلہ باہر ہی کرتے ہیں۔ آپ کا صرف ایک مقصد ہوتا ہے اور وہ یہ کہ کسی بھی طرح اس خطرناک وائرس کو جسم کے اندر داخل ہونے سے روکا جائے۔ اس کے لئے سماجی فاصلہ، بار بار ہاتھ دھونا، اور ماسک پہننا سب سے زیادہ ضروری ہیں۔
لیکن ایک اندرونی محاذ بھی ہوتا ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اگر خدا ناخواستہ کورونا وائرس آپ کے جسم میں آ بھی جائے تب بھی آپ کی قوت مدافعت اتنی طاقتور ہو کہ آپ اس کا مقابلہ کر سکیں۔ یاد رکھیئے یہ بات اب ثابت ہو چکی ہے کہ جن لوگوں کی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے، اب چاہے وہ بڑھاپے کی وجہ سے ہو، یا پہلے سے کسی موجود بیماری کی وجہ سے، وہ کورونا کا سب سے آسانی سے شکار بن سکتے ہیں۔
یاد رکھیئے قوت مدافعت یعنی امیونٹی بڑھانے کا کوئی شارٹ کٹ نہیں، کوئی ٹوٹکا نہیں بلکہ دراصل یہ ایک پوری طرز زندگی کا نام ہے۔ آئیے جانتے ہیں اور وہ بھی جدید تحقیق اور میڈیکل سائنس کی روشنی میں کہ کس طرح اپنی قوت مدافعت کو اتنا مضبوط بنا یا جا سکتا ہے کہ ناصرف کورونا بلکہ دوسری خطرناک بیماریوں جیسے کینسر، ہائی بلڈ پریشر، اور بہت سی دوسری بیماریوں کا بھی کامیابی سے مقابلہ کیا جا سکے۔
سو ضروری ہے کہ ہم جانیں وہ سارے طریقے، وہ ساری چیزیں، وہ ساری غذائیں اور ایسا مکمل ڈائٹ پلان، جو آپ کی قوت مدافعت کو بڑھا سکتا ہے اور اپ کو مستقل طور پر ایک مضبوط لائف اسٹائل اختیار میں مدد کر سکتا ہے۔
سو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپنی قوت مدافعت یا امیونٹی کو کیسے بڑھایا جائے۔ امیونٹی نام ہے ایک پوری طرز زندگی کا، ایک لائف اسٹائل کا۔ اور اس لائف اسٹائل کے چار حصے ہیں :
پہلا نیند، دوسرا دماغی دباؤ کی لیول، تیسرا ورزش یعنی ہم جسمانی طور پر کتنا ایکٹو ہیں اور چوتھا اور سب سے اہم ڈائٹ یعنی ہماری روز کی غذا۔
1۔ سب سے پہلے بات کرتے ہیں نیند کی۔ ہر بالغ فرد کو روز یعنی ہر چوبیس گھنٹوں میں کم از کم سات سے آٹھ گھنٹے نیند لینا ضروری ہے۔ تحقیق کے مطابق وہ لوگ جو پوری نیند لیتے ہیں، ان میں بیماریوں کی شرح ان لوگوں سے کم ہوتی ہے جن میں نیند کی کمی ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے گاڑی کو اور ہر مشین کو ریسٹ دینا ضروری ہے، ہمارا جسم بھی آرام مانگتا ہے، یہ لگژری نہیں بلکہ ضرورت ہے۔ سو اپنے جسم کو آرام دے کر ری سیٹ کرنا لازمی ہے۔
2۔ پھر ہے اسٹریس لیول۔ یعنی آپ اپنی دماغی ٹینشن کو، اپنے ذہنی دباؤ کو، انزائٹی کو یا ڈپریشن کو کتنی کامیابی سے سنبھالتے ہیں۔ اپنے گھر کی پریشانیوں کو، جاب یا کاروبار کے مسائل کو، خاندانی اور مالی مشکلات کو کتنا بہتر طریقے سے ہینڈل کرتے ہیں۔ یاد رکھئے، جب ہم ذہنی دباؤ ہوتے ہیں تو ہمارا جسم اسٹریس ہارمونز خارج کرتا ہے۔ جو ہماری بیماری سے لڑنے کی صلاحیت کو کمزور کر دیتے ہیں۔ یہ جان لیں کہ غذا اور خوراک صرف وہ ہی نہیں ہوتی جو ہم کھاتے پیتے ہیں بلکہ غذا وہ بھی ہوتی ہے جس میں ہم سانس لیتے ہیں، جو ہم سنتے ہیں، دیکھتے ہیں، جو ہم سوچتے ہیں، جن لوگوں اور مشاغل کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔ سو اپنے جسم کے ساتھ ساتھ، اپنے جذبات کی خوراک کا، ذہن کی خوراک کا، روح کی خوراک کا خیال رکھنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ خالی دماغ صرف خیالی پلاؤ ہی پکاتا ہے اور شیطان کا گھر بھی اسی لئے کہا گیا ہے کیونکہ جب انسان فارغ ہو،
اس کا ذہن کسی مثبت سوچ اور مقصد سے خالی ہو تو اس میں منفی سوچیں ڈیرے ڈال لیتی ہیں۔ سو کسی اچھے مشغلے کا ہونا، اپنے آپ کو مثبت چیزوں میں مصروف رکھنا، اپنے سامنے مقصد کو رکھنا بہت ضروری ہے۔ ساتھ ہی عبادت کو نہ بھولیں، اپنے خالق کے ساتھ رشتے کو مضبوط بنائیں۔ دوسروں کی مدد کریں، چیریٹی کا کام کریں، اپنے دوست رشتے داروں سے رابطہ رکھیں، آپ خود فرق محسوس کریں گے۔
3۔ تیسری چیز ہے حرکت: یعنی آپ جسمانی طور پر کتنا ایکٹو ہیں۔ جب ہم ورزش کرتے ہیں تو ہمارا جسم اچھے ہورمونز خارج کرتا ہے جن سے آپ نہ صرف ذہنی طور پر ری لیکس ہوتے ہیں بلکہ آپ کی بیماریوں سے لڑنے اور درد سہنے کی قوت بھی بہت بڑھ جاتی ہے۔ سو ہفتے میں کم از کم پانچ دن روزانہ کم از کم آدھے گھنٹے تک ورزش ضرور کیجئے۔ جیسے جاگنگ، ہلکی ویٹ لفٹنگ، تیز تیز چلنا، یا کوئی بھی ایسی ورزش جسے آپ روز باقاعدگی سے انجام دے سکیں۔
4۔ اور اب بات کرتے ہیں سب سے اہم ترین چیز یعنی غذا کی۔ آج سے ڈھائی ہزار سال پہلے بقراط نے کہا تھا کہ ساری بیماریوں کا آغاز پیٹ سے ہوتا ہے۔ اور آج سائنس بھی یہ کہتی ہے کہ ہماری اسی فیصد امیونٹی ہمارے پیٹ یعنی نظام ہاضمہ میں ہوتی ہے۔ اور یہی قوت بیماری اور صحت کے درمیان حد فاصل بن سکتی ہے۔
سو کون سی وہ چیزیں ہیں جنھیں آپ روزانہ اپنی خوراک میں شامل کر کے ایک مضبوط اور دیرپا امیونٹی کے مالک بن سکتے ہیں اور کورونا وائرس کے خلاف دفاع زیادہ کامیابی سے کر سکتے ہیں۔ وہ چیزیں ہیں تین، جو روزانہ آپ کو اپنی خوراک میں شامل کرنی ہیں۔ یعنی اینٹی آکسیڈنٹس، پروٹین اور پرو بایؤٹکس۔
نمبر 1۔ اینٹی آکسیڈنٹس: اینٹی آکسیڈنٹس وہ غذائی اجزا ہوتے ہیں جو آپ کے جسم کو وائرس یا دوسری بیماریوں یا بڑھتی عمر کے ساتھ ہونے والی ٹوٹ پھوٹ سے بچاتے ہیں۔ آیئے، ایسے سات اینٹی آکسیڈنٹس کے بارے میں جانتے ہیں جو نا صرف مختلف وائرسز کے خلاف آپ کی امیونٹی کو بڑھاتے ہیں بلکہ ان کا روزانہ استعمال دوسری موذی بیماریوں جیسے کینسر، الزہایئمر، پارکنسن اور دل کی بیماری کے خلاف بھی اتنا ہی مفید ہے۔
وہ سات اینٹی آکسیڈنٹس یہ ہیں :
وٹامن سی: تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ وٹامن سی کا مختلف قسم کے وائرس جیسے سانس کے نظام میں بیٹھ جانے والے وائرس کے خلاف بہت طاقتور کردار ہے۔ یہ ورم اور سوزش کم کرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ وٹامن سی رسدار پھلوں اور سبزیو ں جیسے کینو، موسمبی، مالٹا آم، سنگترہ، کیوی، ٹماٹر، لیموں، پھول گوبھی، شمہ مرچ، ہری مرچ، پالک، اور بروکولی میں کثرت سے پایا جاتا ہے۔
دوسرا وٹامن اس سے بھی زیادہ اہم ہے اور وہ ہے وٹامن ڈی۔ ریسرچ کے مطابق کورونا وائرس کا رسک ایسے لوگوں میں کئی گنا بڑھ جاتا ہے جن میں وٹامن ڈی کی کمی ہوتی ہے۔ اور ہمارے معاشرے میں اکثریت وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہے۔ چونکہ یہ وٹامن سورج کی روشنی سے بھی بنتا ہے سو ایک اور اسٹدی سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ کورونا وائرس کے وہ مریض جو روزانہ دو سے تین گھنٹے دھوپ لیتے تھے ان میں جلد شفا ہونے کا تناسب زیادہ تھا بہ نسبت ان کے جو دھوپ نہیں لیتے تھے۔ دھوپ کے علاوہ وٹامن ڈی آپ کو بڑے سائز کی مچھلی، کوڈ لیور آئل، انڈوں، دودھ، پنیر، دہی اور مشروم میں مل سکتا ہے۔
کچھ سائنسی شواہد کے مطابق گلوٹا تھائیون کورونا وائرس کے مریضوں میں سانس کی تکلیف کو کم کر سکتا ہے اور ساتھ ہی گلوٹا تھائیون کی کمی سے بھی بیماری کی شدت بڑھ سکتی ہے۔ گلوٹا تھائیون ہمیں مل سکتا ہے تربوز، اواکیڈو، بادام اور پستے، پالک، بروکولی اور پھول گوبھی کے ذریعے۔
چوتھا اینٹی اکسیڈینٹ ہے کرکیومن جو ہلدی میں پایا جاتا ہے اور سائنسی تحقیق کے مطابق ورم، سوزش اور وائرل انفیکشن کے خلاف بے حد فائدہ مند ہے۔ آٓپ ہلدی کو روزانہ دودھ، چائے یا گرین ٹی میں ڈال کر یا پھر اپنے پسندیدہ کھانوں یا دالوں میں شامل کر کے
بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
اسی طرح سیلینیم بھی ایک شاندار اینٹی اکسیڈنٹ ہے۔ چائنہ میں ہونے والی تحقیق کے مطابق وہ علاقے جہاں سیلینیم غذا میں باقاعدگی سے استعمال ہوتا تھا وہاں کورونا
وائرس سے ٹھیک ہونے والے لوگوں کی شرح کافی زیادہ تھی۔ سیلینیم کے ذرائع میں شامل ہیں : بیف کلیجی، سالمن اور ٹیونا مچھلی، چکن، انڈے، ناریل، پالک، بروکولی، لہسن، ادرک، مشروم، اوٹس، خالص گندم کا آٹا اور براون چاول۔
چھٹا اینٹی اکسیڈینٹ ہے زنک۔ اور زنک کا کردار خاص طور پر کرونا وائرس کے حوالے سے بہت اہم ہے۔ یہ نا صرف وائرس کی افزائش کو کم کر سکتا ہے بلکہ قوت مدافعت کو بڑھانے میں لاجواب ہے۔ اس کے قدرتی ذرائع میں شامل ہیں، بیف، چکن، مچھلی، ڈارک چاکلیٹ، پستے، بادام، کاجو، جھینگے، لوبیا، اور کدو کے بیج وغیرہ۔
اور اب بات ہو جائے فلیوونوائڈز کی جو وائرس کے خلاف جنگ میں بے حد مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ فلیوونوائڈز آپ کو ملیں گے، پیاز، ادرک، فالسہ، آلوچہ، جامن، انار، سرخ اور کالے انگوروں، سیب اور ڈارک چاکلیٹ میں۔
نمبر 2۔ اینٹی آکسیڈنٹس کے بعد غذا میں دوسری اہم ترین چیز ہے پروٹین۔ بخار اور انفیکشن کی صورت میں پروٹین سے بھرپور غذا آپ کو ناصرف جسمانی طاقت فراہم کرتی ہے بلکہ آپ کو جلدی ٹھیک ہونے میں بھی مدد دیتی ہے۔ سو گوشت جیسے مٹن، چکن، فش، انڈے، یخنی اور سوپ، دودھ، پنیر وغیرہ بہت اہم ہیں۔ اگر آپ ویجیٹیرین یعنی سبزی خور ہیں تو گوشت کے بجائے دالیں، لوبیہ یعنی بینز، اور مٹر وغیرہ بھی لے سکتے ہیں۔
ٓ نمبر 3۔ پرو بائیوٹکس کہتے ہیں اچھے جراثیموں کو جو ہمارے ہاضمے اور آنتوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ اچھے ہاضمے کا مطلب ہے طاقتور اور دیرپا امیونٹی اور انفیکشن اور دوسری بیماریوں سے جلد سے جلد نجات۔ پرو بائیوٹکس کا سب سے بہترین ذریعہ ہے دہی، جس کا کم از کم ایک کپ روزانہ کھانا معمول بنا لیں۔ اس کے علاوہ سافٹ چیڈر چیز مکھن کی چھاچھ، سیب کے سرکے اور ڈارک چاکلیٹ میں بھی پرو بائیوٹکس موجود ہوتے ہیں۔
ہائی اوریک فوڈز وہ غذائیں ہوتی ہیں جن میں فری ریڈیکلز کو ختم کرنے کی صلاحیت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ فری ریڈیکلز ان ایٹمز کو کہتے ہیں جو آپ کے جسم اور آپ کی قوت مدافعت کے دشمن ہوتے ہیں اور ان کے بڑھ جانے کی صورت میں ہمارے اوپر کوئی بھی بیماری آسانی سے حملہ کر سکتی ہے۔ ایسی ہی کچھ ہائی اوریک فوڈز میں شامل ہیں، آلو بخارہ، کشمش، جامن، اسٹرابیری، رس بھری، بلیو بیری وغیرہ۔ سبز الائچی، دار چینی، کالی مرچ، خالص ڈارک چاکلیٹ، ادرک اور لہسن۔
اور اب کچھ بڑی آزمودہ ٹپس جو آپ کو ایک صحتمندانہ طرز زندگی برقرار رکھنے میں بے حد مدد دیں گی۔
رات کے کھانے کے بعد جو میٹھا آپ کو ضرور لینا ہے اور وہ بھی روزانہ۔ وہ ہے ڈارک چاکلیٹ، تقریباً ایک انچ کا ٹکڑا ضرور کھائیں۔ روزانہ کم از کم دو سے تین لیٹر پانی پیجئے۔ صبح کا ناشتہ بہت اچھا کریں اور رات کا کھانا کم مقدار میں کھائیں۔ کورونا وائرس کا مرض لاحق ہونے کی صورت میں فوراً خود کو سیلف آئسولیٹ کریں لیکن جب تک ممکن ہو اپنے کمرے میں ہلکی پھلکی ورزش کرتے رہیں اور چلتے پھرتے رہیں۔
یوٹیوب سے دیکھ کر سانس کی مشقیں کریں۔
کورونا وائرس ہونے کی صورت میں چاول، ٹھنڈی اور کھٹی چیزوں سے پرہیز کریں اور اے سی کی ٹھنڈک سے خود کو بچائیں۔ کوشش کریں روزانہ کچھ دیر دھوپ کی روشنی ضرور لیں۔ کھانا پکانے کے لیے زیتون کا تیل یعنی ایکسٹرا ورجن اولیو آئل استعمال کریں یا پھر خالص کنولا آئل۔ آگر آپ کو ذیابیطس نہ ہو تو روز ایک کھانے کا چمچہ خالص شہد بھی بہت مفید ہے۔ ایک سے دو لہسن کے جوے، ہوا میں خشک کر کے روزانہ ضرور لیں۔