بچے تو ویسے سارے ہی اچھے ہوتے ہیں لیکن کچھ بچے پورے گھر کی جان ہوتے ہیں۔ ان کی چھوٹی چھوٹی شرارتیں گھر کے تناؤ کو فوراً خوشگوار ماحول میں تبدیل کر دیتی ہیں۔ کسی پریشانی میں ان کا اپنی چمکتی معصوم آنکھوں کے ساتھ اپنے والدین سے لپٹ جانا ، انہیں پرسکون کر دیتا ہے۔ لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہی بچے بہت چڑچڑے ہو جاتے ہیں، بات بات پر رونا، اپنے بہن بھائیوں سے چیزیں چھیننا اور نہ ملنے پر گلا پھاڑ کر رونا شروع کر دینا، پہلے تو والدین کو سمجھ ہی نہیں آتا کہ اس خوش مزاج بچی یا بچے کو اچانک ہو کیا گیا ہے ۔ اس کے مسلسل چڑچڑے پن سے وہ خود اور تمام گھر والے پریشان ہو جاتے ہیں۔
اصل میں رات کو دیر میں سلانے کی وجہ سے ان بچوں کی دوپہر کی نیند ختم ہو جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے دوپہر کے بعد ان کا جسم اور ذہن نیند کا طلب گار ہوتا ہے لیکن نیند نہ ملنے کی وجہ سے ان کا مزاج جارحانہ اور جھگڑالو ہو جاتا ہے، وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر زور زور سے رونا شروع کر دیتے ہیں۔
تمام انسانوں کی طرح بچوں کے لیے بھی نیند ایک بنیادی ضرورت ہے، اس بات کو ایک تجربے کی مدد سے اچھی طرح جانا جا سکتا ہے۔
اگر آپ کے بچے چھوٹے ہیں تو کچھ دن کے لیے انہیں دوپہر میں سونے نہ دیں۔ نوٹ کریں کہ ان کے جذبات اور رویوں میں کیسی تبدیلی آ رہی ہے۔
اگر آپ خود دوپہر میں سونے کے عادی ہیں تو یہ تجربہ خود بھی کر سکتے /سکتی ہیں کہ نیند آنے کے باوجود اگر آپ سو نہیں رہے تو آپ کیسا محسوس کریں گے اور کیسا رویہ اپناتے ہیں۔
عموماً دوپہر کی نیند جسے نیپ کہتے ہیں، نہ لی جائے تو فرد کی سوچ دھندلی جبکہ موڈ خراب ہو جاتا ہے۔
آج ہم بات کر رہے ہیں چھوٹے بچوں پر کم نیند کے اثرات کی۔ سلیپ ریسرچ جرنل کی ایک تحقیق میں تیس سے چھتیس ماہ کے بچوں پر نیند کے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔ اس ضمن میں دس صحت مند بچے جنہیں نیند کے حوالے سے کوئی مسئلہ نہ تھا ان پر دوپہر کو سلانے اور نہ سلانے کا تجربہ کیا گیا۔
والدین نے بچوں کو پانچ دن تک دوپہر میں سلانے اور پھر پانچ دن دوپہر میں نہ سلانے کے شیڈول پر سختی سے عمل کیا، نیند لینے والے پانچ دنوں اور نیند نہ لینے والے پانچ دنوں، دونوں کے دوران بچوں کا جذباتی ردعمل بہت مختلف رہا۔
مثلاً جب بچہ دوپہر کی نیند نہیں لے رہا تھا تو اس میں کنفیوژن (الجھن) کا عنصر کم رہا مگر تصاویر دیکھنے کے دوران منفی ردعمل کا تناسب بڑھ گیا۔
اسی طرح آسان سرگرمی جیسے پزل حل کرنے کے دوران مثبت جذبات کا تناسب کم جبکہ مشکل سرگرمی کے دوران منفی جذبات جیسے اینزائٹی (بے چینی) اور پریشانی کا تناسب بڑھ گیا۔
محققین نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ بظاہر دوپہر کی نیند نہ لینا ایک معمولی سی بات محسوس ہوتی ہے تاہم بتدریج بچے میں کھیل کے دوران فطری خوشی کی کیفیت میں کمی، اور اینزائٹی میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔
بڑے بچوں کے لیے نیند کی اہمیت: بچے جب بڑے ہونا شروع ہوتے ہیں تو یہی بات ان کی نیند کے بارے میں کہی جا سکتی ہے کہ رات کی پرسکون اور اچھی نیند بچے کی شخصی تعمیر کے لیے بہت اہم ہے۔ خصوصاً سات سے دس برس کے دوران جب تک ان کی ذہنی نمو مکمل نہیں ہو جاتی، نیند کے اوقات طے کرنا ضروری ہوتا ہے۔ تاہم بڑھتے بچوں کی نیند کا شیڈول بنانا اور اس پر عمل کرانا کافی مشکل کام ثابت ہوتا ہے۔
نیند کو کیسے بہتر بنائیں؟
بچوں کی نیند بہتر بنانے کے لیے سب سے اہم یہ ہے کہ والدین اس پر سوچنا اور قابل عمل حل تلاش کرنا شروع کریں۔ اس کے لئے سونے کے وقت سے پہلے نہانا، کہانی سنانا، کوئی کتاب پڑھوانا بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
نیند کی روٹین: بڑوں کی طرح بچے بھی عادات کے ذریعے چیزیں سیکھتے ہیں۔ ایک مستقل بیڈ روٹین کے ذریعے آپ بچے کے ذہن اور جسم کو اس بات کے لیے بتدریج تیار کر سکتے ہیں کہ اسے کب سونا اور کب اٹھنا ہے۔ ایک وقت مقرر کر لیں اور پھر سختی سے اس کی پابندی کریں۔ اس سے بچے کے جسم میں موجود قدرتی نیند کی گھڑی اس وقت سونے کی عادی ہو جائے گی اور بچہ خود ہی اس وقت سونے پر آمادہ ہو جائے گا۔
متعین وقت: سونے کے لیے ایک متعین وقت بھی بچوں کی نیند کو بہتر کرنے میں معاون حکمت عملی ثابت ہوتی ہے۔ تاہم یہ اسی وقت زیادہ فائدہ مند ہوتی ہے جب اسے مستقل مزاجی سے اپنایا جائے۔
اسکرین کرفیو: موبائل، ٹی وی، لیپ ٹاپ ایک ’بلیو لائٹ‘ مسلسل خارج کرتے ہیں جو نیند کے ہارمون میلا ٹونن کو متاثر کرتے ہیں۔ زیادہ اسکرین کا استعمال بچوں کے ذہن کو بہت زیادہ متحرک کر دیتا ہے جس کی وجہ سے نیند کے وقت دماغ کو اپنی فطری حالت میں آنے کے لیے نسبتاً زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔ ان سب مسائل کو قابو کرنے کے لیے اسکرین کرفیو کی پالیسی اپنائی جائے کہ سونے سے ایک یا دوگھنٹے پہلے سے ’اسکرین کے استعمال پر کرفیو‘ لگ جائے گا اور بچے کسی قسم کی اسکرین دیکھنا چھوڑ دیں گے۔
ورزش: جسمانی سرگرمی بہتر نیند سے متعلق چند بہترین حکمت عملیوں میں سے ایک ہے، اس کے ذریعے بچے اور بڑے دونوں بہتر طور پر اور فوراً نیند کی وادی میں اتر جاتے ہیں۔
ہفتے میں چند دن ورزش اور جسمانی سرگرمی کے لیے مخصوص کریں اور ہر ممکن طریقے سے اس پر عمل درآمد کریں اور کروائیں۔
غذا کا کردار: یہ بھی بہت اہم ہے۔ شام اور رات کے وقت چائے، کافی یا سوڈا یا کولا ڈرنکس کا استعمال بھی نیند کو تباہ کر سکتا ہے۔ اس کے برعکس سبزیاں، سلاد اور پھل نیند کی مدت اور معیار دونوں کو بہتر بناتے ہیں۔
خیال رہے کہ نومولود اور ایک سال تک کی عمر کے بچوں کو بہت زیادہ نیند چاہیے ہوتی ہے ہر چوبیس گھنٹوں میں تقریباً بارہ سے پندرہ گھنٹے۔ اسی طرح
دو سال کی عمر تک کے بچوں کو گیارہ سے چودہ گھنٹے اور پانچ سال کی عمر تک کے بچوں کو کم از کم دس سے تیرہ گھنٹے، اور اسی طرح چھ سے تیرہ سال کی عمر تک کے بچوں کو ہر چوبیس گھنٹوں میں سے کم از کم نو سے گیارہ گھنٹے نیند درکار ہوتی ہے۔
بچے تو ویسے سارے ہی اچھے ہوتے ہیں لیکن کچھ بچے پورے گھر کی جان ہوتے ہیں۔ ان کی چھوٹی چھوٹی شرارتیں گھر کے تناؤ کو فوراً خوشگوار ماحول میں تبدیل کر دیتی ہیں۔ کسی پریشانی میں ان کا اپنی چمکتی معصوم آنکھوں کے ساتھ اپنے والدین سے لپٹ جانا ، انہیں پرسکون کر دیتا ہے۔ لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہی بچے بہت چڑچڑے ہو جاتے ہیں، بات بات پر رونا، اپنے بہن بھائیوں سے چیزیں چھیننا اور نہ ملنے پر گلا پھاڑ کر رونا شروع کر دینا، پہلے تو والدین کو سمجھ ہی نہیں آتا کہ اس خوش مزاج بچی یا بچے کو اچانک ہو کیا گیا ہے ۔ اس کے مسلسل چڑچڑے پن سے وہ خود اور تمام گھر والے پریشان ہو جاتے ہیں۔
اصل میں رات کو دیر میں سلانے کی وجہ سے ان بچوں کی دوپہر کی نیند ختم ہو جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے دوپہر کے بعد ان کا جسم اور ذہن نیند کا طلب گار ہوتا ہے لیکن نیند نہ ملنے کی وجہ سے ان کا مزاج جارحانہ اور جھگڑالو ہو جاتا ہے، وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر زور زور سے رونا شروع کر دیتے ہیں۔
تمام انسانوں کی طرح بچوں کے لیے بھی نیند ایک بنیادی ضرورت ہے، اس بات کو ایک تجربے کی مدد سے اچھی طرح جانا جا سکتا ہے۔
اگر آپ کے بچے چھوٹے ہیں تو کچھ دن کے لیے انہیں دوپہر میں سونے نہ دیں۔ نوٹ کریں کہ ان کے جذبات اور رویوں میں کیسی تبدیلی آ رہی ہے۔
اگر آپ خود دوپہر میں سونے کے عادی ہیں تو یہ تجربہ خود بھی کر سکتے /سکتی ہیں کہ نیند آنے کے باوجود اگر آپ سو نہیں رہے تو آپ کیسا محسوس کریں گے اور کیسا رویہ اپناتے ہیں۔
عموماً دوپہر کی نیند جسے نیپ کہتے ہیں، نہ لی جائے تو فرد کی سوچ دھندلی جبکہ موڈ خراب ہو جاتا ہے۔
آج ہم بات کر رہے ہیں چھوٹے بچوں پر کم نیند کے اثرات کی۔ سلیپ ریسرچ جرنل کی ایک تحقیق میں تیس سے چھتیس ماہ کے بچوں پر نیند کے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔ اس ضمن میں دس صحت مند بچے جنہیں نیند کے حوالے سے کوئی مسئلہ نہ تھا ان پر دوپہر کو سلانے اور نہ سلانے کا تجربہ کیا گیا۔
والدین نے بچوں کو پانچ دن تک دوپہر میں سلانے اور پھر پانچ دن دوپہر میں نہ سلانے کے شیڈول پر سختی سے عمل کیا، نیند لینے والے پانچ دنوں اور نیند نہ لینے والے پانچ دنوں، دونوں کے دوران بچوں کا جذباتی ردعمل بہت مختلف رہا۔
مثلاً جب بچہ دوپہر کی نیند نہیں لے رہا تھا تو اس میں کنفیوژن (الجھن) کا عنصر کم رہا مگر تصاویر دیکھنے کے دوران منفی ردعمل کا تناسب بڑھ گیا۔
اسی طرح آسان سرگرمی جیسے پزل حل کرنے کے دوران مثبت جذبات کا تناسب کم جبکہ مشکل سرگرمی کے دوران منفی جذبات جیسے اینزائٹی (بے چینی) اور پریشانی کا تناسب بڑھ گیا۔
محققین نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ بظاہر دوپہر کی نیند نہ لینا ایک معمولی سی بات محسوس ہوتی ہے تاہم بتدریج بچے میں کھیل کے دوران فطری خوشی کی کیفیت میں کمی، اور اینزائٹی میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔
بڑے بچوں کے لیے نیند کی اہمیت: بچے جب بڑے ہونا شروع ہوتے ہیں تو یہی بات ان کی نیند کے بارے میں کہی جا سکتی ہے کہ رات کی پرسکون اور اچھی نیند بچے کی شخصی تعمیر کے لیے بہت اہم ہے۔ خصوصاً سات سے دس برس کے دوران جب تک ان کی ذہنی نمو مکمل نہیں ہو جاتی، نیند کے اوقات طے کرنا ضروری ہوتا ہے۔ تاہم بڑھتے بچوں کی نیند کا شیڈول بنانا اور اس پر عمل کرانا کافی مشکل کام ثابت ہوتا ہے۔
نیند کو کیسے بہتر بنائیں؟
بچوں کی نیند بہتر بنانے کے لیے سب سے اہم یہ ہے کہ والدین اس پر سوچنا اور قابل عمل حل تلاش کرنا شروع کریں۔ اس کے لئے سونے کے وقت سے پہلے نہانا، کہانی سنانا، کوئی کتاب پڑھوانا بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
نیند کی روٹین: بڑوں کی طرح بچے بھی عادات کے ذریعے چیزیں سیکھتے ہیں۔ ایک مستقل بیڈ روٹین کے ذریعے آپ بچے کے ذہن اور جسم کو اس بات کے لیے بتدریج تیار کر سکتے ہیں کہ اسے کب سونا اور کب اٹھنا ہے۔ ایک وقت مقرر کر لیں اور پھر سختی سے اس کی پابندی کریں۔ اس سے بچے کے جسم میں موجود قدرتی نیند کی گھڑی اس وقت سونے کی عادی ہو جائے گی اور بچہ خود ہی اس وقت سونے پر آمادہ ہو جائے گا۔
متعین وقت: سونے کے لیے ایک متعین وقت بھی بچوں کی نیند کو بہتر کرنے میں معاون حکمت عملی ثابت ہوتی ہے۔ تاہم یہ اسی وقت زیادہ فائدہ مند ہوتی ہے جب اسے مستقل مزاجی سے اپنایا جائے۔
اسکرین کرفیو: موبائل، ٹی وی، لیپ ٹاپ ایک ’بلیو لائٹ‘ مسلسل خارج کرتے ہیں جو نیند کے ہارمون میلا ٹونن کو متاثر کرتے ہیں۔ زیادہ اسکرین کا استعمال بچوں کے ذہن کو بہت زیادہ متحرک کر دیتا ہے جس کی وجہ سے نیند کے وقت دماغ کو اپنی فطری حالت میں آنے کے لیے نسبتاً زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔ ان سب مسائل کو قابو کرنے کے لیے اسکرین کرفیو کی پالیسی اپنائی جائے کہ سونے سے ایک یا دوگھنٹے پہلے سے ’اسکرین کے استعمال پر کرفیو‘ لگ جائے گا اور بچے کسی قسم کی اسکرین دیکھنا چھوڑ دیں گے۔
ورزش: جسمانی سرگرمی بہتر نیند سے متعلق چند بہترین حکمت عملیوں میں سے ایک ہے، اس کے ذریعے بچے اور بڑے دونوں بہتر طور پر اور فوراً نیند کی وادی میں اتر جاتے ہیں۔
ہفتے میں چند دن ورزش اور جسمانی سرگرمی کے لیے مخصوص کریں اور ہر ممکن طریقے سے اس پر عمل درآمد کریں اور کروائیں۔
غذا کا کردار: یہ بھی بہت اہم ہے۔ شام اور رات کے وقت چائے، کافی یا سوڈا یا کولا ڈرنکس کا استعمال بھی نیند کو تباہ کر سکتا ہے۔ اس کے برعکس سبزیاں، سلاد اور پھل نیند کی مدت اور معیار دونوں کو بہتر بناتے ہیں۔
خیال رہے کہ نومولود اور ایک سال تک کی عمر کے بچوں کو بہت زیادہ نیند چاہیے ہوتی ہے ہر چوبیس گھنٹوں میں تقریباً بارہ سے پندرہ گھنٹے۔ اسی طرح
دو سال کی عمر تک کے بچوں کو گیارہ سے چودہ گھنٹے اور پانچ سال کی عمر تک کے بچوں کو کم از کم دس سے تیرہ گھنٹے، اور اسی طرح چھ سے تیرہ سال کی عمر تک کے بچوں کو ہر چوبیس گھنٹوں میں سے کم از کم نو سے گیارہ گھنٹے نیند درکار ہوتی ہے۔
عام طور پر زیادہ تر بچوں کے لئے یہ ہوری نیند ایک ہی دفعہ میں لینا ممکن نہیں ہوتا ، سو اس کا بہترین حل یہ ہے کہ بچوں کو دوپہر میں اسکول سے واپسی پر کھانا کھاتے ہی ضرور سلائیں۔ اسی طرح چھٹی کے روز جب اگلے دن اسکول جانا ہو تو دوپہر کی نیند کے بجائے رات میں جلدی سلا دینا بھی کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔
بچوں کی نیند ہوری ہونے کی صورت میں نہ صرف ان کے مزاج پر بہت مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ جسمانی صحت، وزن اور قوت مدافعت بھی بڑھتی ہے جس کے نتیجے میں ان پر بیماریاں بھی کم حملہ آور ہوتی ہیں۔