ڈاکٹر سید اکرام
بھیڑ یا شیر؟ یہ ذہانت نہیں ذہنیت کی بات ہے
جانتے ہیں آج کل کا سب بڑا خوف کون سا ہے؟
”لوگ کیا کہیں گے“ کا خوف۔
اور اگر آپ حق پر ہوں اور جیسے ہی آپ اس خوف کی پروا کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
تو ہھر آپ بھیڑ نہیں رہتے۔
شیر بن جاتے ہیں۔
اور آپ اپنے اندر ایک عظیم دھاڑ محسوس کرتے ہیں۔ آزادی کی صدا۔ شیر کی جیسی دھاڑ جو پانچ میل دور سے بھی سنی جا سکتی ہے۔
بھیڑ کی کوئی آزادی نہیں ہوتی۔
بھیڑ اپنی زندگی کا ہر روز خوف اور بے یقینی میں گزارتی ہے۔
بھیڑ کبھی آگے نہیں چلتی۔
شیر کبھی پیچھے نہیں چلتا۔
ایک شیر کو آپ کبھی نہیں ”ہنکاتے“ کہ کدھر جانا ہے اور کب جانا ہے۔
آپ شیر کو کبھی مذبح خانے نہیں لے جا سکتے۔
ہاں وہ ضرور آپ کو اپنی کچھار میں لے جائے گا۔
آخر کو شیر جنگل کا بادشاہ ہے۔
لیکن یہ بادشاہت اس لئے نہیں کہ شیر جنگل میں سب سے بڑا ہوتا ہے۔ ہاتھی خشکی کا سب سے بڑا جانور ہے۔
یا سب سے طاقتور ہوتا ہے، کیونکہ گینڈے میں شیر سے زیادہ طاقت ہوتی ہے۔
یا سب سے تیز ہوتا ہے کیونکہ بہرحال چیتا تیز ترین جانور ہے۔
یا سب سے اونچا ہوتا ہے،
یا سب سے ذہین ہوتا ہے۔
بلکہ شیر جنگل کا بادشاہ ہوتا ہے اپنی ”ذہنیت“ کی وجہ سے۔
جب ایک شیر دوسرے جانوروں کو دیکھتا ہے تو کھانے کا سوچتا ہے۔
لیکن جب کوئی بھی دوسرا جانور شیر کو دیکھتا ہے تو بھاگنے کا سوچتا ہے۔
سو شیر کی ذہنیت کیا ہوتی ہے؟
بے خوف ہمت: بہادری شیر کی پہچان ہے۔ شیر کبھی سرنڈر نہیں کرتا، کبھی ہار نہیں مانتا۔
شیر کبھی بھی لڑائی چھوڑ کر لیٹ کر نہیں مرتا حتیٰ کہ اسے دس جنگلی کتے یا بھینسے بھی گھیر لیں۔ ہاں، لڑتے لڑتے ضرور مر سکتا ہے۔ اور یہ لڑائی اس وقت تک ختم نہیں ہوتی جب تک کہ واقعی ختم نہ ہو جائے۔ آپ کی زندگی کی بھی جنگ آپ کے تھکنے ہر ختم نہیں ہوتی بلکہ جیتنے یا ہارنے پر ختم ہوتی ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ نہ صرف اپنی کمزوریوں پر کام کریں بلکہ اپنی مضبوطیوں کو بھی مزید ابھاریں۔ کوئی بھی سو فیصد پرفیکٹ نہیں ہوتا لیکن جب آپ کو اپنی شخصیت کی کمزوریوں اور مضبوط پہلوؤں کے بارے میں آگاہی ہوتی ہے تو آپ اسی لحاظ اسے اپنے لئے مقصد اور میدان عمل چن سکتے ہیں اور کامیاب بھی ہو سکتے ہیں۔
سوچیے، وہ کون سے کام ہیں جنہیں آپ دوسروں کی نسبت زیادہ آسانی سے انجام دے سکتے ہیں۔ شیر رسک لیتا ہے، درد اور خطرہ مول لیتا ہے لیکن اس کے سامنے ایک مقصد ہوتا ہے۔ ہمیشہ سستی، شارٹ کٹ اور آرام تلاش کرنے والے کبھی مقصد کو نہیں پا سکتے۔ یاد رکھیں، شیر کبھی مردار اور بیمار جانور کا شکار نہیں کرتا۔ اس میں اتنی عزت نفس ہوتی ہے کہ پہلے سے مرتے ہوئے یا زخمی جانور کو چھوڑ دے۔ سو خود کی ترقی کے لئے ایسے راستے پر چلنے سے نہ کترائیں جس سے آپ کو خوف آتا ہو۔ چلینج سے نہ ڈریں۔ کیونکہ کہ بہترین منزل اکثر مشکل ترین راستوں پر چل کر ہی مل پاتی ہے۔
شاید آپ کی زندگی میں آپ کو جنگلی کتوں نے نہیں، قرضوں نے، دوسروں کے طعنوں نے، ڈپریشن نے، مایوسی نے گھیر رکھا ہو۔
شاید کوئی بھی آپ کے خیالات سے، نظریات سے متفق نہ ہو، بلکہ آپ سے ہمدردی کے دو بول تک کہنے پر تیار نہ ہو۔ ہمت نہ ہاریں۔
شاید آپ برسوں سے کچھ سوچ رہے ہیں لیکن اس کام کے لیے عملی کوشش ابھی تک نہیں کی، ہمت نہ ہاریں بلکہ کر گزریں۔
یا شاید اپنے مقصد کے پیچھے بھاگ بھاگ کر لیکن اپنی کوشش کا کوئی صلہ نہ دیکھ کر آپ تھک چکے ہیں۔
ہمت نہ ہاریں۔ اپنے آپ کو میدان جنگ میں تصور کر کے لڑتے رہیں۔
ہاں، اس بات کی کوئی ”ضمانت“ نہیں کہ آپ اپنے مقصد کو حاصل بھی کر پائیں گے لیکن اس کا ”امکان“ ضرور موجود ہے لیکن صرف اس وقت تک جب تک آپ میدان عمل میں حاضر ہیں، برسر پیکار ہیں۔ ضمانت تو صرف اس وقت ہوتی ہے، اور وہ بھی شکست کی، جب آپ میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔
یقین: شیر کو یقین محکم ہوتا ہے۔ وہ کبھی اندازے نہیں لگاتا، تکے نہیں مارتا۔ جب شکار کے پیچھے جاتا ہے تو سو فیصد یقین کے ساتھ جاتا ہے۔ شیر اور نیم دلی کا کوئی جوڑ نہیں۔ خدا کی ودیعت کردہ صلاحیتوں پر یقین محکم آپ کو گرنے نہیں دیتا اور اگر گر بھی جاتے ہیں تو اٹھا کر کھڑا کر دیتا ہے۔ خدا پر توکل اور اس کے دیے ہوئے ٹیلنٹ پر بھروسہ بہت ضروری ہے۔ اپنے نتیجے حاصل کرنے کے لئے آپ دوسروں پر بھروسا نہیں کر سکتے۔ سو آگے بڑھیے، اپنی ذمہ داری خود سنبھالیں۔ جو فیصلہ بھی کریں، جس راستے کا بھی انتخاب کریں، خود پر یقین کے ساتھ کریں، خدا پر توکل کے ساتھ کریں۔
آزادی: شیر شاید جنگل کا آزاد ترین جانور ہے کیونکہ وہ کبھی اپنی آزادی پر سمجھوتہ نہیں کرتا۔ آزادی اپنے خیال کے اظہار کی، اپنے جذبے کے اظہار کی۔ جب خدا نے آپ کو آزاد پیدا کیا ہے تو پھر اس دنیا میں اپنے جیسے دوسروں کی غلامی کیوں۔ یہاں آزادی کا مطلب مادر پدر آزادی نہیں بلکہ اپنے حق کی ازادی ہے، غلامی سے آزادی ہے، اپنے زندگی کے مقصد کو پانے کی آزادی ہے۔ اور دوسروں کو بھی آزادی کے ساتھ جینے کا حق دینے کی آزادی ہے۔
تحفظ: شیر خود سے جڑی ہر چیز کی حفاظت کرتا ہے، چاہے وہ اس کا خاندان ہو، اس کا طعام ہو، اس کی بادشاہی ہو یا اس کا شکار۔ آپ کو کس چیز کی حفاظت کرنی ہے؟ ضروری نہیں کہ یہ محض جسمانی حفاظت ہو بلکہ ذہنی طور ہر، جذباتی طور پر آپ اپنے وقت کی قربانی کس چیز کے لیے دے سکتے ہیں۔ کوئی سے تین ایسے رشتوں کے بارے میں سوچیں، دوست، والدین، بہن بھائی، بچے یا بیوی، جو آپ کو ”موٹیویٹ“ رکھیں، جن کے لیے آپ ترقی کرنا چاہتے ہوں، جن کی زندگی آپ کے آگے بڑھنے سے اور بہتر اور محفوظ ہو جائے گی۔
صلاحیت: شیر عام طور پر ایک دن میں بیس گھنٹے تک سو سکتا ہے لیکن پھر بھی بقیہ چار گھنٹوں میں وہ ان بیس گھنٹوں کے لئے اپنا اور اپنے خاندان کا انتظام کر کے سوتا ہے۔ یعنی اس کے لئے کام کی مقدار سے زیادہ معیار اہم ہے۔ اور ایسا اس کی بے پناہ صلاحیتوں کے بل پر ہی ممکن ہوتا ہے۔ سو ضروری نہیں آپ کتنی دیر تک کوئی کام کریں بلکہ یہ اہم ہے کہ آپ کام کون سا کرتے ہیں اور اس کام کی اہمیت کتنی ہے نہ کہ اس کام کا دورانیہ۔
بھوک: پیٹ بھرا شیر شکار نہیں کرتا۔ بھوکا شیر زیادہ خطرناک کیوں ہوتا ہے؟ کیونکہ جب تک وہ اپنا پیٹ نہ بھر لے، آرام سے نہیں بیٹھتا۔ آپ کو بھی اپنے مقصد کی بھوک ہونی چاہیے۔ اس کے لئے ہوک ہونی چاہیے۔ فوکس یعنی ارتکاز ہونا چاہیے۔ بالکل ایسے جیسے شیر کی نظر جب شکار پر ہوتی ہے تو وہ اپنے اطراف کی چیزوں کو خاطر میں نہیں لاتا۔
خدا مشکل ترین جنگیں اپنے مضبوط ترین سپیاہیوں کو نہیں دیتا بلکہ وہ مشکل ترین جنگوں کے ذریعے مضبوط ترین سپاہی پیدا کرتا ہے۔ دوسرے آپ سے زیادہ ذہین ہو سکتے ہیں، آپ سے زیادہ مضبوط ہو سکتے ہیں، زیادہ خوش قسمت ہو سکتے ہیں لیکن کیا دوسرے آپ کو شکست دے سکتے ہیں، آپ کو آپ کے مقصد اور اس کی راہ پر چلنے سے روک سکتے ہیں یا نہیں، اس کا فیصلہ دوسروں کے نہیں، خود آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔