ڈپریشن سے بچاؤ اور علاج: غذا کا اہم کردار
ڈاکٹر سید اکرام
گزشتہ دو کالموں میں ہم نے تذکرہ کیا تھا ڈپریشن کے حوالے سے، کہ یہ کیا ہوتا ہے کیسے ہوتا ہے، اس کی علامات کیا ہوتی ہیں۔ پھر ہم نے جانا ڈپریشن کی تشخیص، علاج اور ماہرین علاج کے بارے میں۔ اور آج ہم تفصیل سے بتائیں گے ان غذاؤں اور خوراک کے بارے میں جن کے باقاعدہ استعمال سے آپ نا صرف ڈپریشن ہونے کا خطرہ کم کر سکتے ہیں بلکہ اس کا علاج بھی کامیابی سے کر سکتے ہیں۔
یعنی اب بات کرتے ہیں خوراک یا غذا کے ڈپریشن سے بچاؤ اور علاج میں اہم کردار کی۔
ٓآسٹریلیا میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ڈپریشن، ذہنی دباؤ یا مایوسی پر قابو پانا اب مشکل نہیں ہے۔ صحت کے لیے مفید غذا یا اچھی خوراک سے اس بیماری پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ دس سال تک کی جانے والی اس تحقیق کے مطابق اگر روز مرہ کی غذا میں پھل، سبزیوں، اجناس، مچھلی سمیت مفید غذاؤں کا استعمال بڑھا دیا جائے تو اس سے نہ صرف ڈپریشن ختم ہو جاتا ہے بلکہ اس پر قابو بھی پایا جا سکتا ہے۔
سو کیا لینا ہے۔ پہلے اس پر بات کرتے ہیں۔ جو چیزیں لینی ہیں ان میں۔ پھل، سبزیاں، زیتون کے تیل، دہی، پنیر، اخروٹ،
سمندری غذائیں، اجناس، کم مقدار میں سرخ گوشت سمیت خاص طور لہسن، پالک، کیلے، شکر قندی، پیاز، شلجم، کھیرا اور گاجر کھانا بھی سود مند ہے۔
متوازن غذا کھانا بہت ضروری ہے۔ آپ کا دل کھانا کھانے کو نہ چاہ رہا ہو تب بھی تازہ پھلوں اور سبزیوں سے سب سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ ڈپریشن میں لوگ کھانا کھانا چھوڑ دیتے ہیں جس سے بدن میں وٹامنز کی کمی ہو جاتی ہے اور طبیعت اور زیادہ خراب لگتی ہے۔
کچھ ایسی غذائیں بھی ہیں جو انسان کو ڈپریشن سے بچاتی ہیں یا آپ کا موڈ بہتر بناتی ہیں۔ جیسے پھلوں میں کیلا، ایوا کاڈو، میووں میں بادام، چیا سیڈز (تخ ملنگا) ، اخروٹ کی گریاں۔
اسی طرح: ڈارک چاکلیٹ دماغ میں ’سیروٹونین‘ نامی ہارمون پیدا کرتی ہے، جس سے انسان کے اندر تازگی کا ایک احساس پیدا ہوتا ہے اور وہ ذہنی دباو سے آزاد ہوجاتا ہے۔
گوشت میں بڑی چربی والی مچھلی جیسے سالمن ڈپریشن اور موڈ کے لئے بہت اچھی ہے۔
سبزیاں اور پھل: کچی سبزیوں اور پھلوں کا باقاعدہ استعمال ڈپریشن کو دور کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ہری سبزیاں مثلاً پالک، مٹر، سلاد کے پتے کھانے سے ڈپریشن کے مرض میں پچاس فیصد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔ اسی طرح تازہ اور ثابت سرخ مرچ، گاجریں اور ٹماٹر بھی موڈ بہتر بناتے ہیں۔
ہلدی بھی ڈپریشن کا قدرتی اور فطری علاج ہے۔ دماغ کی سوزش اور الزائمر جیسی بیماریوں کے لئے بھی ہلدی مفید ہے۔ ہلدی دماغ کی مجموعی صحت کا خیال رکھتی ہے اور دماغ میں آکسیجن کی فراہمی میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ اوٹ میل جسے جئی کا دلیا بھی کہتے ہیں ڈپریشن میں بہت مفید ہے، خاص طور پر ناشتے میں استعمال کے لئے۔
اسی طرح کسی بھی طرح کے دماغی امراض کے لیے سویا بین اور کھوپرے کے تیل کا استعمال کافی مفید ہوتا ہے۔
اور کس چیز سے پرہیز کرنا ہے؟ شراب نوشی، سگریٹ نوشی، بہت زیادہ چائے نوشی یا اس طرح کی دیگر چیزوں کے استعمال سے اجتناب کیا جائے۔ اسی طرح جو ہم کھاتے پیتے ہیں اس سے بھی ڈپریشن کا رسک بڑھ سکتا ہے۔ جیسے کافی اور انرجی ڈرنکس بہت زیادہ پینا اس کے لئے اچھا نہیں کیوں کہ ان میں موجود کیفین جسم میں موجود اسٹریس ہارمون کو خارج کرتی ہے جس کی وجہ سے آپ کے دل کی دھڑکن اور خون کی روانی بھی متاثر ہو سکتی ہے۔
بالکل ایسے ہی سفید بریڈ، سفید چاول اور سفید پاستا بھی ڈپریشن کے مرض میں اضافہ کر سکتے ہیں کیونکہ یہ تمام تر چیزیں پروسیسڈ ہوتی ہیں جب کہ ان میں ریفائنڈ شکر ہوتی ہے جو کہ صحت کے لیے مضر سمجھی جاتی ہے۔
پھر تلی ہوئی اشیاء یعنی چپس، بروسٹ، ڈونٹس اور اس طرح کے دیگر کھانوں کا روزانہ استعمال کرنے سے بھی ڈپریشن کا رسک بڑھ جاتا ہے۔
اسی طرح جو لوگ الکحل بہت زیادہ پیتے ہیں ان میں سے اکثر لوگوں کو ڈپریشن ہو جاتا ہے۔
اور بھی بہت سی کارآمد ٹپس ہیں جن کے ذریعے ڈپریشن کے علاج میں آپ کو گھر بیٹھے کافی مدد مل سکتی ہے۔
مثال کے طور پر چیریٹی۔ لوگوں کی مدد کریں۔ مستحق لوگوں کی مدد کرنے سے جو خوشی مل سکتی ہے، وہ دنیا کے کسی بھی خزانے سے زیادہ ہے۔
دوسرا یہ کہ اپنے آپ کو مختلف مثبت یا تفریحی سرگرمیوں میں مصروف رکھیں کیونکہ ڈپریشن زیادہ تر فارغ اوقات اور خالی دماغ پر حملہ آور ہوتا ہے۔ مختلف تخلیقی سرگرمیوں مثلاً تحریر یا تقریر کی عادت، پینٹنگ، کوکنگ، فلاور میکنگ، سوشل ورکنگ، باغبانی، درس و تدریس سے آہستہ آہستہ مریض خود کو حالت سکون اور اطمینان میں محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس وقت ضرورت ہوتی ہے ایک متوازن ”ٹائم ٹیبل“ کی جس میں سونے جاگنے اور کھانا کھانے جیسے کاموں کو بھی اوقات کار کا پابند کیا جائے۔
پھر ہے سوشلائزیشن۔ ایک تحقیق کے مطابق وہ لوگ جو خاندان کے ساتھ رہتے ہیں ان کی ذہنی اور جسمانی صحت ان لوگوں کے مقابلے میں نسبتاً بہتر ہوتی ہے جو کہ اکیلے رہنا پسند کرتے ہیں۔ ایسے افراد جو ڈپریشن سے پہلے مایوسی اور اداسی کا شکار رہتے ہیں، ان میں چونکہ ڈپریشن کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، ان کے گھر والوں کو چاہیے کہ ایسے افراد کو اکیلا نہ چھوڑیں۔ ان سے ان کی مشکلات اور پریشانیوں کے بارے میں بات کریں۔ ماہرین کے مطابق ڈپریشن کے شکار افراد کے ساتھ شفقت اور محبت کا برتاؤ کیا جانا چاہیے اور ان کے ساتھ سختی کرنے یا ان کی حالت کو نظر انداز کرنے سے ان کے مرض کو بڑھاوا ملتا ہے۔ ’ڈپریشن یا خودکشی کی جانب مائل شخص کی مدد کا بہترین طریقہ اس سے بات چیت ہے اور اس میں انھیں بولنے دیں اور آپ ان کی بات سنتے رہیں۔ اگر آپ کا فیملی ممبر رات کو دس بجے چھ گھنٹے کے لیے بھی آپ سے بات کریں تو ان کی بات سنیں۔
’
اور مریض کو بھی چاہیے کہ اپنی جذباتی کیفیات کو راز نہ رکھے۔ اگر آپ نے کوئی بری خبر سنی ہو تو اسے کسی قریبی شخص سے شیئر کر لیں اور انھیں یہ بھی بتائیں کہ آپ اندر سے کیسا محسوس کر رہے ہیں۔
اپنی خوراک کا خاص خیال رکھا جائے اینٹی ڈپریشن ڈائٹ لی جائے۔
جسمانی کام کریں۔ کچھ نہ کچھ ورزش کرتے رہیں، چاہے یہ صرف آدھ گھنٹہ روزانہ چہل قدمی ہی کیوں نہ ہو۔ ورزش
سے انسان کی جسمانی صحت بھی بہتر ہوتی ہے اور نیند بھی۔ ویسے روزانہ کم از کم سات اور زیادہ سے زیادہ آٹھ گھنٹے کی نیند ضروری ہوتی ہے اگر نیند رات کو پوری نہ ہو تو دن میں سو کر اس کمی کو دور کیا جا سکتا ہے۔ اگر رات کو آنکھ کھل جائے تو ہو سکتا ہے کہ آپ خوش قسمت ہوں۔ اور نماز شب۔ تہجد کے ذریعے اپنے دل کی بات اپنے خالق و مالک سے کر سکیں۔ فرق آپ خود محسوس کریں گے۔ ڈائری لکھیے۔ اپنے تاثرات اور احساسات کو اظہار کا راستہ دیجئے۔ اور ڈائری اس حوالے سے ایک بہترین ساتھی ثابت ہوتی ہے۔
ذہنی سکون کی ورزشیں کیجئے جن میں گہرے سانس کی ورزش آسان ترین لیکن انتہائی موثر ہے۔ یوگا بھی بہت فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
اپنے معمولات میں اخبارات یا کتب کا مطالعہ، اور اپنی دلچسپی اور مشاغل کو مد نظر رکھتے ہوئے مثبت سرگرمیوں کو شامل کیا جائے۔ خود کو مصروف رکھیں۔
پازیٹو سیلف ٹاک یعنی مثبت خود کلامی آپ کے اعتماد میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ اپنے آپ کو یاد دلاتے رہیں کہ
آپ جس تجربے سے گزر رہے ہیں اس سے اور لوگ بھی گزر چکے ہیں اور ایک نہ ایک روز آپ آپ کا ڈپریشن ختم ہو جائے گا چاہے ابھی آپ کو ایسا نہ لگتا ہو۔
مسکراہٹ کی وجہ ڈھونڈیے اور وہ وجہ ضروری نہیں کہ آپ کو کسی بہت بڑی خوشخبری سے ملے۔ وہ وجہ کسی بچے کی معصوم ہنسی، کسی پھول کے کھلنے، کسی پرندے کے چہچہانے، من پسند کھانے کے ذائقے، من پسند موسیقی کی دھن یا اس طرح کی بظاہر بے ضرر چیزوں سے کشید کی جا سکتی ہے۔
جانتے ہیں ہماری نسل کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ وہ یہ کہ ہم نے اپنی خواہشات کا دائرہ کار بہت وسیع کر لیا ہے۔
ہماری ایک خواہش پوری ہو جائے تو ہمیں مزید کی طلب ہوتی ہے۔ ہم نے چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو اہمیت دینا چھوڑ دیا ہے، شکر کرنا چھوڑ دیا ہے، جو چیز میسر ہے اس پر شکر نہیں کرتے، قناعت نہیں کرتے جو نہیں ہے اس کے پیچھے دوڑتے ہیں، اسی لئے یہ بے چینی، اداسیاں ہمارے عہد کی علامت بن گئی ہیں۔
آئیے! مل کر خوش رہنا سیکھتے ہیں۔ روپیہ پیسہ اور مادی اشیاء بھلے وقت کی ضرورت ہیں لیکن ان ضرورتوں میں سب سے بڑی ضرورت آپ خود ہیں۔ خود پر توجہ دیجئے۔