ڈپریشن: کیا، کیوں اور کیسے ہوتا ہے؟
ڈاکٹر سید اکرام
چراغ دل کو ذرا احتیاط سے رکھنا
کہ آج رات چلے گی ہوا اداسی کی
ہم انسان ہیں۔ روبوٹ نہیں۔ اسی لئے ہم میں خیالات بھی ہیں، احساسات بھی اور جذبات بھی!
ہم خوش بھی ہوتے ہیں، اور کبھی کبھی اداسی، مایوسی اور بیزاری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ عموماً یہ علامات ایک یا دو ہفتے میں ٹھیک ہو جاتی ہیں اور ہماری زندگیوں میں ان سے بہت زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ لیکن اگر یہ اداسی، بیزاری، اور چڑچڑا پن روزانہ طاری رہے اور ہفتوں اور مہینوں تک جاری رہے تو یہ ڈپریشن جیسے مرض کی علامت ہو سکتی ہے۔
ڈپریشن کیا ہوتا ہے، کیوں ہوتا ہے، کیسے ہوتا ہے، کیسے پہچانا جاتا ہے؟ آج ہم جانیں گے ان سارے سوالات کے جوابات۔ آسان لفظوں میں، طبی تحقیق کی روشنی میں۔
ڈپریشن کہتے ہیں یاسیت یا افسردگی کی کیفیت کو۔ حالانکہ نفسیاتی امراض میں سب سے زیادہ عام اور خطرناک مرض ڈپریشن ہے لیکن اس کے بارے میں ہمارے معاشرے میں آگہی بہت کم ہے۔ بہت سارے افراد اس کو شخصیت کی خامی کے طور پر دیکھتے ہیں کہ فلاں حساس طبیعت کا مالک ہے یا یہ ایک عارضی کیفیت ہے یا یہ کہا جاتا ہے کہ کسی پر جن بھوت آ گیا ہے۔
بعض اوقات تو ہمارے اپنے بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم ظاہری طور پر بہت خوش لگ رہے ہیں، دوسروں سے ملتے جلتے یا ہنسی مذاق کرتے ہیں تو ہم کو کیسے ڈپریشن ہو سکتا ہے؟
اسی لئے اکثر یہ باتیں سننے کو ملتی ہیں۔
”یہ سب تمہارا وہم ہے، پریشانی کی کوئی بات نہیں ’یا‘ خوش رہا کرو، تم بہتر محسوس کرو گے۔“
کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ کسی سے ذکر کریں کہ آپ ڈپریشن کا شکار ہیں یا اس کا علاج کروا رہے ہیں تو اکثر یہ سننے کو ملتا ہے کہ ڈپریشن کوئی بیماری نہیں بلکہ کردار کی کمزوری ہے یا گناہ کا احساس ہے۔
جی نہیں جناب۔ ’ڈپریشن بالکل ایک ”بیماری ہے“ ، جیسا کہ، بلڈ پریشر، ذیابیطس یا دیگر امراض اور یہ بیماری کسی بھی انسان کو ہو سکتی ہے چاہے وہ اندر سے کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو۔ اور جیسے اور بیماریوں کے مریض ہمدردی اور علاج کے مستحق ہوتے ہیں اسی طرح سے ڈپریشن کے مریض بھی توجہ اور علاج کے مستحق ہوتے ہیں، تنقید اور مذاق اڑائے جانے کے نہیں۔
ڈبلیو ایچ او کی ایک رپورٹ کے مطابق آج دنیا کا ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے جبکہ دنیا بھر میں سالانہ تقریباً آٹھ لاکھ افراد ذہنی دباؤ کی وجہ سے خود کشی کر لیتے ہیں جبکہ تقریباً بیس فیصد لوگ ڈپریشن کے باعث دیگر نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ایک تحقیق کے مطابق کم از کم تین فیصد آبادی ذہنی دباؤ یا ڈپریشن کا شکار ہے اور ہر چوتھے گھر میں ایک ذہنی مریض موجود ہے اور کیا آپ کو معلوم ہے کہ پندرہ سے انتیس سال کے افراد میں خودکشیوں میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ ڈپریشن ہے؟
سو ڈپریشن میں کیا ہوتا ہے؟ جب مایوسی اور اداسی کا غلبہ بہت دنوں تک رہے اور اس کی شدت اتنی زیادہ ہو کہ زندگی کے روزمرہ کے معمولات اس سے متاثر ہونے لگیں اور متاثرہ شخص ایک خول میں بند ہو کر رہ جائے تو اسے ڈپریشن کا نام دیا جاتا ہے۔ طبی اعتبار سے اگر ہم بات کریں تو اداسی اس وقت ڈپریشن کی بیماری کہلانے لگتی ہے جب:
اداسی کا احساس کم از کم مسلسل دو ہفتے تک برقرار رہے اور ختم ہی نہ ہو
اور اداسی کی شدت اتنی زیادہ ہو کہ زندگی کے روز مرہ کے معمولات اس سے متاثر ہونے لگیں
اور آپ پر منفی خیالات اور خواہشات کا غلبہ بھی ہو سکتا ہے۔
ڈپریشن میں کیسا محسوس ہوتا ہے؟
ڈپریشن کے مرض میں دماغی ہارمونز یعنی ڈوپامائن اور سیروٹونین کی سطح میں کمی بیشی آتی ہے جو کہ براہ راست مزاج اور جسمانی توانائی سے منسلک ہارمونز ہیں سو ہمارے جسم میں اور مزاج میں بھی تبدیلیاں رونما ہونی شروع ہوجاتی ہیں۔ اسی لئے اس کی شدت عام اداسی کے مقابلے میں بہت زیادہ گہری اور طویل ہوتی ہے۔ ڈپریشن کی مرکزی علامت مزاج میں اداسی اور زندگی میں دلچسپی کھو دینا ہے۔ ایسی سرگرمیاں جو پہلے بہت پرلطف لگتی تھیں، ان میں کشش ختم ہوجاتی ہے، مریضوں میں پچھتاوے یا مایوسی، امید کھو دینے اور موت یا خودکشی کے خیال ابھر سکتے ہیں۔
بعض لوگوں کو اس مایوسی کی حالت میں اپنے اردگرد کے لوگوں کو اپنے پیاروں کو اپنے جذبات اور احساسات سنا کر اور ان سے مل کر طبیعت میں بہتری محسوس ہوتی ہے جبکہ کچھ افراد اپنے جذبات اور احساسات اپنے علاوہ کسی دوسرے فرد سے بیان نہیں کر سکتے اور اپنی ذات کے خول میں بند ہو کر اس ڈپریشن کے شکنجے میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ آخر کوئی شخص ڈپریشن میں مبتلا ہونے کے بعد اس کی شناخت کیسے کرے؟
اس کا جواب ہے کہ علامات اور نشانیوں سے۔ ضروری نہیں کہ ہر مریض میں تمام علامات مو جود ہوں لیکن اگر آپ میں مندرجہ زیل میں سے کم از کم چار علامات موجود ہوں تو اس بات کا امکان ہے کہ آپ ڈپریشن کے مرض کا شکار ہوں۔
نمبر ایک۔ ہر وقت یا زیادہ تر وقت اداس اور افسردہ رہنا اور ہفتوں یا مہینوں تک اس اداسی کا جاری رہنا۔
نمبر دو۔ جن چیزوں اور کاموں میں پہلے دلچسپی ہو ان میں دل نہ لگنا، کسی چیز میں مزا نہ آنا۔
تیسری علامت ہے جسم میں درد اور وہ بھی بغیر کسی ظاہری وجہ کے۔ جیسے کمر میں درد، پٹھوں میں تکلیف یا جسم میں کسی بھی جگہ بلاوجہ درد ڈپریشن کی نشانی سمجھی جاتی ہے
نمبر چار۔ اسی طرح جسمانی یا ذہنی کمزوری محسوس کرنا، بہت زیادہ تھکا تھکا محسوس کرنا
نمبر پانچ۔ اسی طرح روز مرہ کے کاموں یا باتوں پہ توجہ نہ دے پانا
نمبر چھ۔ اپنے آپ کو اوروں سے کمتر سمجھنے لگنا، خود اعتمادی کم ہو جانا۔ ماضی کی چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے
اپنے آپ کو الزام دیتے رہنا، اپنے آپ کو فضول اور ناکارہ سمجھنا۔ ڈپریشن آپ کی روزمرہ زندگی کی سرگرمیوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ آپ کا بستر سے نکلنے کا دل نہیں کرتا، یا پھر آپ لوگوں سے ملنے ملانے سے کتراتے ہیں۔
نمبر سات۔ مستقبل سے مایوس ہو جانا
نمبر آٹھ۔ خودکشی کے خیالات آنا یا خود کشی کی کوشش کرنا
نمبر نو۔ بے خوابی، نیند خراب ہو جانا، خصوصاً علی الصبح جاگنا یا پھر دن میں بہت زیادہ سونا۔
نمبر دس۔ جسمانی درد کی طرح آدھے سر کا درد یعنی مائیگرین بھی ڈپریشن سے جڑا ہوا ہو سکتا ہے۔
نمبر گیارہ۔ بھوک خراب ہو جانا: کیونکہ ڈپریشن ان ہارمونز پر بھی اثرانداز ہوتا ہے جو کہ خوراک کی خواہش کو کنٹرول
کرتے ہیں، یعنی زیادہ بھوک لگ سکتی ہے یا کچھ بھی کھانے کو دل نہیں کرتا۔ اس کے نتیجے میں لوگ یا تو بہت زیادہ کھا لیتے ہیں یا بہت کم کھاتے ہیں، جس کے نتیجے میں جسمانی وزن میں اضافہ یا کمی ہونے لگتی ہے۔ ہاضمہ بھی خراب ہو سکتا ہے۔ سینے میں جلن، قبض، ہیضہ اور قے وغیرہ بھی ہو سکتی ہیں۔
مزید علامات: ان کے علاوہ مریض کے بولنے کا انداز بدل سکتا ہے۔ کچھ لوگ آہستگی سے بولنے لگتے ہیں اور جملہ مکمل کرنے میں زیادہ وقت لینے لگتے ہیں۔ اور ہاں۔ جلد پر تبدیلیاں ہو سکتی ہیں۔ کیونکہ ذہنی تناو کا باعث بننے والے ہارمونز جلد کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں، ڈپریشن کے دوران ان ہارمونز کی مقدار بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے جس کے نتیجے میں اکثر مریضوں کو کیل مہاسوں اور خارش وغیرہ کا سامنا ہوتا ہے۔
ڈپریشن کیوں ہو جاتا ہے؟ اس کی وجہ کیا ہوتی ہے؟
ڈپریشن کسی کو کسی بھی وقت ہو سکتا ہے لیکن بعض لوگوں کو جو ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں اپنی اداسی کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ لیکن تحقیق کی روشنی میں ڈپریشن کی یہ عام وجوہات ہو سکتی ہیں۔ جیسے
موروثیت: ڈپریشن کی بیماری بعض خاندانوں میں زیادہ ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کے والدین میں سے کسی ایک کو ڈپریشن کی بیماری ہے تو آپ کو ڈپریشن ہونے کا خطرہ اور لوگوں کے مقابلے میں آٹھ گنا زیادہ ہے۔ اس حوالے سے جینز بھی کردار ادا کرتے ہیں، والدین یا بہن بھائیوں میں اس مرض کی موجودگی آپ میں بھی اس کا خطرہ بڑھا سکتی ہے، مردوں کے مقابلے میں خواتین میں اس کا امکان دوگنا زیادہ ہوتا ہے۔
معاملات زندگی: مثال کے طور پر بعض تکلیف دہ واقعات مثلاً کسی قریبی عزیز کے انتقال، طلاق، یا نوکری ختم ہو جانے کے بعد بعض لوگ اس اداسی سے باہر نہیں نکل پاتے۔ والدین کے درمیان طلاق، یا بچے کو دوسرے بہن بھائیوں کے مقابلے میں نظر انداز کرنا بھی ڈپریشن کو جنم دے سکتا ہے۔
موسموں کے ساتھ مزاج بدلنا: فراز نے کہا تھا: ”یونہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے، کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں۔
سو اگر آپ کا مزاج موسم سے مطابقت رکھتا ہے یعنی گرمیوں سے خوش باش اور سردیوں میں اداس، تو یہ ڈپریشن کی ایک قسم ہو سکتی ہے جسے سیزنل ڈپریشن بھی کہا جاتا ہے، خزاں کے اختتام اور سردیوں کے آغاز سے یہ سامنے آ سکتا ہے اور ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں بیس فیصد تک افراد اس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔
ایک اور وجہ ہے بچے کی پیدائش؛ بچے کی پیدائش کے بعد ہر چار میں سے ایک ماں میں ڈپریشن کا امکان ہوتا ہے، یعنی مزاج بہت زیادہ خراب رہنے لگتا ہے جسے پوسٹ پارٹم ڈپریشن بھی کہا جاتا ہے مگر اس سے بچے کی صحت متاثر ہو سکتی ہے کیونکہ بیمار ماں اس کی نگہداشت سے غفلت برت سکتی ہے۔
ایک اور رسک ہے۔ اور وہ ہے تنہائی۔ اگر ہم تنہا ہوں، ہمارے آس پاس کوئی دوست نہ ہوں، ہم ذہنی دباؤ کا شکار ہوں، یا ہم بہت زیادہ جسمانی تھکن کا شکار ہوں، ان صورتوں میں ڈپریشن کی بیماری ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جسمانی بیماریاں بھی ڈپریشن کا سبب بن سکتی ہیں۔ مثلاً کینسر یا دل کی بیماریاں، یا بہت لمبے عرصے چلنے والی اور تکلیف دہ بیماریاں مثلاً جوڑوں کی تکلیف یا سانس کی بیماریاں۔
یہ تو تھا ڈپریشن کی وجوہات، علامات اور رسک کا تذکرہ۔ ڈپریشن کی تشخیص کیسے ہوتی ہے علاج کیسے کیا جاتا ہے اور وہ کون سی خوراک یا غذائیں ہیں جن سے ڈپریشن کے خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے، اس پر ہم بات کریں گے اگلے کالم میں، پڑھنا ہر گز مت بھولیے گا۔