falij kiyon hota hai aur issey bachao kesey mumkin hai

سیانوں نے کہا ہے کہ حرکت میں برکت ہے، حرکت یعنی ایکٹیویٹی، موومنٹ، ہلنا جلنا، موبیلیٹی زندگی کی علامتوں میں سے ایک ہے۔ اور اگر کسی وجہ سے یہ حرکت اگر کم ہو جائے، جامد ہو جائے، ختم ہو جائے، اور تحرک اگر سکوت میں بدل جائے تو زندگی کا سکون بھی جا سکتا ہے۔

ہمارا آج کا موضوع ایک ایسی کیفیت ہے، ایسی حالت ہے جس عام طور پر ذہن تو مفلوج نہیں ہوتا مگر جسم کا کوئی حصہ اچانک کام کرنا چھوڑ سکتا ہے یہ ایک ایسی صورت حال ہوتی ہے جس میں ہوش تو اکثر باقی رہتا ہے مگر جسم سے جوش اور ولولہ ختم ہو جاتا ہے، لامحدود زندگی پر حدیں نافذ ہو جاتی ہیں، خود پر سے، اپنے جسم، اپنے بدن پر سے اختیار ختم ہو جاتا ہے۔ جیتی جاگتی زندگی فقط کپکپاہٹ اور تھرتھراہٹ تک محدود ہو سکتی ہے اور اکثر اپنے لئے، اپنی بنیادی ضروریات کے لئے، اپنی روزمرہ حاجات کے لئے بھی دوسروں کا محتاج ہونا پڑ جاتا ہے۔

جی ہاں، ہم بات کر رہے ہیں فالج کی، جسم کے یا جسم کے کسی حصے کے مفلوج ہو جانے کی۔ معذور ہو جانے کی، ساکت ہو جانے کی، جامد ہو جانے کی۔ اس کیفیت کو، اس بیماری کو، اس مرض کو انگریزی میں سٹروک کہتے ہیں۔

فالج ایسا مرض ہے جس کے دوران دماغ کو نقصان پہنچتا ہے اور جسم کا کوئی حصہ مفلوج ہو جاتا ہے اور مناسب علاج بروقت مل جائے تو اس کے اثرات کو کم از کم کیا جا سکتا ہے تاہم اکثر لوگ اس جان لیوا مرض کی علامات کو دیگر طبی مسائل سمجھ لیتے ہیں اور علاج میں تاخیر ہو جاتی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال ساڑھے تین لاکھ سے زائد لوگ فالج کے حملے کا شکار ہوتے ہیں۔ ان میں سے تقریباً ستر فیصد سے زیادہ لوگ فالج کی وجہ سے کسی بھی مستقل معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں، ایک اور اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً دس لاکھ لوگ فالج کے باعث کسی نہ کسی حوالے سے معذوری کا شکار ہیں۔ اسی طرح دس سے بیس فیصد لوگ فالج کے حملے کی وجہ سے موت کے منہ میں بھی چلے جاتے ہیں۔

فالج ایک اور حوالے سے بھی ایک منفرد اور پیچیدہ بیماری ہے کہ یہ ایک جانب تو خود مریض کے لیے تکلیف کا باعث ہوتی ہی ہے دوسری طرف مریض کی دیکھ بھال اور نگہداشت کا طویل اور صبر آزما مرحلہ بھی گھر والوں کو درپیش ہوتا ہے۔ اس بناء پر مریض کے ساتھ ساتھ اس کے گھر والے بھی سخت پریشانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

فالج کیا ہے؟

ہم جانتے ہیں کہ ہمارے جسم، اس کی حرکت، ہمارے بولنے ، ہماری زبان ، ہمارے ہوش ، ہمارے سوچنے سمجھنے کو ہمارا برین یعنی ہمارا دماغ کنٹرول کرتا ہے اور جس طرح کسی بھی چلتی گاڑی کو فیول کی یا پیٹرول کی ضرورت ہوتی ہے بالکل اسی طرح ہمارے دماغ کو آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے خون کے ذریعے ملتی ہے۔ اب اگر کسی بھی وجہ سے دماغ کو اس خون کی فراہمی متاثر ہو جائے۔ اس میں رکاوٹ پیدا ہو جائے، یا اس میں کمی ہو جائے تو دماغ کے کچھ خلیات مر جاتے ہیں اور ان خلیات کی موت کے نتیجے میں فالج کی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔

مثال کے طور پر اگر اگر ہمارے دماغ کے ان خلیات کو نقصان پہنچتا ہے جو ہماری زبان، ہماری بول چال قابو کرتے ہیں تو فالج کے نتیجے میں ہم بول نہیں پاتے۔ اسی طرح اگر دماغ کا وہ حصہ متاثر ہوتا ہے جو ہماری جسمانی حرکت کو کنٹرول کرتا ہے تو ہم جسمانی طور پر مفلوج ہو جاتے ہیں، معذور ہو جاتے ہیں۔ سو اس طرح فالج کے دورے کے بعد ہر گزرتے منٹ میں آپ کا دماغ انیس لاکھ خلیات سے محروم ہو رہا ہوتا ہے اور ایک گھنٹے تک علاج کی سہولت میسر نہ آنے کی صورت میں دماغی عمر میں ساڑھے تین سال کا اضافہ ہو جاتا ہے۔

یعنی آپ دماغی طور پر اچانک بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ علاج ملنے میں جتنی تاخیر ہو گی اتنا ہی بولنے میں مشکلات، یادداشت سے محرومی اور رویے میں تبدیلیوں جیسے مسائل کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ چنانچہ فالج کو جتنا جلد پکڑ لیا جائے اتنا ہی اس کا علاج زیادہ مؤثر طریقے سے ہو پاتا ہے اور دماغ کو ہونے والا نقصان اتنا ہی کم ہوتا ہے۔

فالج کی اقسام

فالج کی پہلی قسم جو نسبتاً کم خطرناک ہوتی ہے اور اسے چھوٹا فالج یا اسکیمک فالج بھی کہتے ہیں۔ یہ دماغ کی جانب خون کی فراہمی میں اچانک کمی کے باعث واقع ہوتی ہے اور یہ نسبتاً عام ہے، یعنی کہ اسی فیصد سے زائد فالج اسی قسم سے تعلق رکھتے ہیں، اب یہ کمی کیوں واقع ہوتی ہے تو اس کی وجوہات میں خون سپلائی کرنے والی شریانوں کا تنگ اور سخت ہو جانا جنہیں اتھیر وسکلروسس بھی کہتے ہیں اور جسم کے دیگر حصوں بالخصوص دل میں خون کے لوتھڑوں کا بننا جو کہ دماغ کی طرف خون کی کم سپلائی کا باعث بنتا ہے، شامل ہیں۔

فالج کی دوسری قسم جسے ہیموریجک فالج یا بڑا فالج بھی کہتے ہیں یہ اتنی عام نہیں لیکن بہت خطرناک ہوتی ہے۔ آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ فلاں فرد کی دماغی شریان پھٹ گئی یا اسے برین ہیمرج ہو گیا، تو اس مراد یہی قسم ہوتی ہے یعنی اس میں کسی خون کی شریان سے دماغ میں خون خارج ہونے لگتا ہے۔ اور اس طرح دماغ کو اپنی کارکردگی کے لئے جو خون چاہیے ہوتا ہے وہ اس تک نہیں پہنچ پاتا اور دماغ مکمل طور پر کام نہیں کر پاتا۔

فالج کی علامت کیا ہوتی ہیں؟

ان دونوں اقسام کے فالج کی زیادہ تر علامات اور نشانیاں ایک جیسی ہوتی ہیں اور فالج کی کچھ انتباہی نشانیاں یعنی وارننگ سائنس اصل دورے سے ایک ہفتہ قبل ہی سامنے آنے لگتے ہیں۔ سو ان میں یہ علامات شامل ہیں جیسے:

اچانک مسلسل شدید سر درد، آدھے سر کا درد جو اگر مائیگرین نہ ہو، مسلسل چکر آنا
ایک کی جگہ دو چیزیں نظر آنا
سن ہونے کی کیفیت مثلاً چہرے پر، کسی عضو یا کسی عضو یا بدن کے کسی حصے یا ہاتھ پیروں کا سن ہو جانا
اعضائی اور بدنی کمزوری، عام طور پر جو جسم کے ایک طرف ہو
توازن یعنی جسم کے بیلنس کا اچانک چلے جانا
غیر واضح گفتگو، بولنے میں مشکل، تھوک گرنا، نگلنے میں دشواری، منہ کا ٹیڑھا پن

بالکل اسی طرح لوگوں کو درست الفاظ کے انتخاب یا کسی چیز کے بارے میں پوری توجہ سے سوچنے میں مشکلات کا سامنا ہونا فالج کی عام علامت میں سے ایک ہے۔

نظر کی دھندلاہٹ، دہری بصارت
غنودگی، بے ہوشی یا کوما
اسی طرح چلتے چلتے اچانک گر جانا یا گردن میں درد بھی اس کی نشانی ہو سکتے ہیں۔

فالج سے پہلے اور فالج کے دوران بلڈ پریشر بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے اور کوئی چیز کھانا پینا یا نگلنا دشوار ہو جاتا ہے۔

کون کون فالج کے زیادہ خطرے میں ہے؟

وہ لوگ جن کا جسمانی وزن نارمل سے زیادہ ہو یا وہ جو تمباکو نوشی یا الکحل استعمال کرتے ہیں اور ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس کے مریض اور مستقل ذہنی دباؤ یا ڈپریشن کے شکار افراد میں فالج کا خطرہ سب سے زیادہ پایا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں موت کا امکان بھی پچپن فیصد تک بڑھ جاتا ہے، اسی طرح اپنی غذا میں نمک کا زیادہ استعمال کرنے والے لوگ، اور وہ لوگ جن کی عمر پچاس سال سے زائد ہو، یا وہ لوگ جن کی دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی یا ایک کنڈیشن جسے ایٹریل فبریلیشن کہتے ہیں موجود ہو، یہ سب فالج کے حملے کے زیادہ رسک پر ہوتے ہیں۔

اسی طرح مرغن غذاؤں کے شوقین موٹے لوگوں میں فالج کا حملہ کسی وقت بھی ہو سکتا ہے۔ جو لوگ زیادہ تر بیٹھے رہتے ہیں اور کسی قسم کی ورزش نہیں کرتے ، ان میں بھی فالج کا حملہ ہونے کے خدشات زیادہ ہوتے ہیں

ہم کیسے فالج کے حملے کو روک سکتے ہیں؟

اس کا جواب اگر آسان لفظوں میں اور ایک لائن میں دوں تو وہ یہ ہے کہ اپنا بلڈ پریشر چوبیس گھنٹے قابو میں رکھیں۔ آپ کا اوپر والا بی پی ایک سو چالیس سے کم ہو اور نیچے والا نوے ایم ایم ایچ جی سے کم ہو اور بلڈ پریشر کو باقاعدگی سے چیک کرتے رہیں۔

اسی طرح فالج سے بچنے کے لیے روزانہ ورزش کی بہت اہمیت ہے کیونکہ ورزش سے خون کی گردش صحیح رہتی ہے اور اس میں کسی قسم کی رکاوٹ کا خطرہ نہیں رہتا ، سو ہفتے میں کم از کم پانچ دن روزانہ پچاس منٹ کی ورزش ضرور کریں۔ مینٹل اسٹریس کم سے کم رکھیں، اپنا وزن کم کریں اور قابو میں رکھیں۔

ہائی بلڈپریشر، ذیابیطس اور فالج کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اگر ان دو بیماریوں کا علاج نہ کیا جائے تو پھر فالج کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان بیماریوں کا مکمل علاج کروایا جائے۔

اپنا بلڈ کولیسٹرول قابو میں رکھیں۔ نقصان دہ کولیسٹرول ایل ڈی ایل کی سطح میں اضافے اور فائدہ مند ایچ ڈی ایل کولیسٹرول کی سطح میں کمی سے شریانوں میں مواد جمع ہونے لگتا ہے، جو خون کا بہاؤ کم کرتا ہے جس سے فالج کا خطرہ بڑھتا ہے۔ اپنی غذا میں چربی اور ٹرانس فیٹ میں کمی لانا فالج کے رسک کو کم کرتا ہے۔

کون سی غذا یسی ہے جو فالج کے خطرے کو کم کر دیتی ہے؟

اپنی روزانہ کی ہر غذا میں فائبر کو حصہ بنانا چاہیے، جس سے فالج کا خطرہ سات فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔ دن بھر میں ہمیں پچیس گرام فائبر کی ضرورت ہوتی ہے جو اجناس اور سبزیوں کے ساتھ پھلوں سے آسانی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

اسی طرح فلیونوئڈز ایسے نباتاتی کیمیکلز ہیں جو کوکا میں پائے جاتے ہیں اور صحت کے لیے انتہائی فائدہ مند ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ ورم کو قابو میں رکھنے میں مدد دیتے ہیں اور دل پر دباؤ کو بھی کم کرتے ہیں۔ تحقیقی رپورٹس میں ثابت ہوا ہے کہ روزانہ کچھ مقدار میں ڈارک چاکلیٹ کھانا ایسے افراد میں ہارٹ اٹیک اور فالج کا خطرہ کم کرتے ہیں، جن میں امراض قلب کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ مگر اس میٹھی سوغات کو زیادہ کھانے سے گریز کریں کیونکہ اس میں شکر اور چکنائی کی مقدار بھی زیادہ ہوتی ہے۔

تمباکو نوشی سے خون میں لوتھڑے بننے، گاڑھا کرنے اور شریانوں کو سکیڑنے کا خطرہ بڑھتا ہے جبکہ مواد اکٹھا ہونے لگتا ہے، یہ سب عوامل فالج کا باعث بن سکتے ہیں۔

درست غذا کا انتخاب: پھلوں، سبزیوں، مچھلی، بغیر چربی والی گوشت اور اجناس پر مبنی متوازن غذا کولیسٹرول کی سطح میں کمی لاتا ہے، جس سے شریانوں میں مواد اکٹھا ہونے اور خون کے لوتھڑے بننے کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔ اس سے دیگر ایسے مسائل سے بھی تحفظ ملتا ہے جو فالج کا خطرہ بڑھا سکتے ہیں جیسے ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر وغیرہ۔

سیب کا استعمال: تحقیق کے مطابق روزانہ ایک سیب کا استعمال جہاں آپ کو مختلف بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے وہیں فالج کا خطرہ بھی پچاس فیصد کم کر دیتا ہے۔ سیب میں فائبر اور سوجن سے لڑنے والے اینٹی آکسائیڈنٹ سے بھرپور ہوتے ہیں۔

ٹماٹر کا استعمال:ٹماٹر کا استعمال بھی آپ کو فالج جیسے امراض سے محفوظ رکھتا ہے۔ تحقیق کے مطابق ٹماٹر میں لائیکو پین نامی اینٹی اکسائیڈنٹ پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے فالج کا خطرہ پچپن فیصد کم ہو جاتا ہے۔

نمک کا استعمال: ماہرین نے روزانہ آدھا چائے کا چمچ نمک استعمال کرنے کی ہدایت کی ہے لیکن اس مقدار سے زیادہ نمک کا استعمال نقصان دہ ہو سکتا ہے کیونکہ نمک بلند فشار خون کو بڑھاتا ہے جو فالج بڑھانے کا سب سے زیادہ سبب بنتا ہے۔

فالج کے علاج میں سب سے اہم بات مریض کے بلڈپریشر کو کنٹرول کرنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اگر شوگر ہو تو اس کا علاج بھی ضروری ہے۔

فالج کے علاج کے لیے مندرجہ ذیل آسان ہدایات پر عمل کریں:

مریض کی جسمانی صفائی کا خیال رکھیں۔ خاص طور پر کمر کی حفاظت بہت ضروری ہے کیونکہ جان لیوا بیڈ سورس (لیٹے رہنے کی وجہ سے پڑنے والے زخم) بہت خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ مریض کو کروٹ دلاتے رہیں اور روزانہ کمر کو صاف کر کے پاؤڈر لگائیں۔

کیا فالج کا مرض ناقابل علاج ہے؟

عمومی طور پر فالج کو ایک ایسی بیماری سمجھا جاتا ہے جس کا کوئی علاج نہیں، حالانکہ یہ تاثر بالکل غلط ہے۔ موجودہ دور میں طب کے شعبے نے جہاں دیگر حوالوں سے علاج کی نئی منزلیں دریافت کی ہیں، وہیں فالج کے علاج میں بھی خاصی پیش رفت ہوئی ہے۔ آج یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ فالج سے نہ صرف حفاظتی تدابیر اختیار کر کے محفوظ رہا جا سکتا ہے بلکہ اس کا انتہائی مؤثر علاج بھی ہمارے ہاں دستیاب ہے۔ بات صرف وقت کی ہے، جتنی جلدی علاج شروع کریں گے، مکمل صحت یابی کے اتنے زیادہ چانسز ہوں گے۔ مختلف ٹیسٹ اور سی ٹی یا ایم آر آئی وغیرہ کروا کے یہ تصدیق کر سکتا ہے کہ آپ پر فالج کا اٹیک ہوا ہے یا ہو سکتا ہے یا نہیں۔ وہ اسپیشلسٹ ڈاکٹر جو فالج کے مرض کو دیکھنے، اور اس کے علاج کے ماہر ہوتے ہیں انھیں نیورو فزیشن یا نیورولوجسٹ کہا جاتا ہے۔

فالج اور لقوے میں فرق ہے یا پھر یہ ایک ہی مرض کے دو مختلف نام ہیں؟

یہ دو مختلف کیفیات یا امراض ہیں۔ فالج کے بارے میں ہم پہلے ہی تفصیل سے بات کر چکے ہیں۔ لقوہ جسے انگریزی میں بیلس پالسی کہتے ہیں یہ ایک مختلف کنڈیشن ہے۔ فالج دماغ کو خون کے بہاؤ میں رکاوٹ یا کمی کی وجہ سے ہوتا ہے جبکہ لقوہ ایک نرو جسے فیشیل نرو کہتے ہیں، اس کے ڈیمیج ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس میں عام طور پر چہرے کا آدھا حصہ یا ایک سائیڈ مفلوج ہو جاتی ہے۔ جبکہ فالج میں صرف چہرہ ہی نہیں بلکہ جسم کا کوئی بھی حصہ مفلوج ہو سکتا ہے۔

اس میں عام طور پر چہرے کی متاثرہ سائیڈ کے جبڑے اور کان میں شدید درد ہوتا ہے۔ اسی طرح لقوے کا مریض متاثرہ سائیڈ کی آنکھ بند کر سکتا ہے جبکہ فالج میں وہ ایسا نہیں کر پاتا۔ لیکن لقوے کا مریض چہرے کے متاثرہ سائیڈ کی بھنوئیں نہیں اٹھا پاتا۔ لقوہ عام طور پر کم عمر لوگوں میں جیسے بیس سے تیس سال کی عمر میں زیادہ پایا جاتا ہے جبکہ فالج زیادہ تر چالیس سے پچاس سال کی عمر کے بعد ہوتا ہے۔ لقوے میں اور دوسری زیادہ علامات نہیں ہوتیں جبکہ فالج میں پورے جسم مین مختلف علامات ہو سکتی ہیں۔ لقوہ ہونے کی رفتار آہستہ ہوتی ہے۔ اور یہ گھنٹوں سے لے کر دنوں میں مکمل طور پر ہوتا ہے جبکہ فالج سیکنڈوں اور منٹوں میں ہو جاتا ہے۔