میر تقی میر کی روح سے معذرت کے ساتھ۔
کیا بود و باش پوچھو ہو، پورب کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے، ہنس ہنس پکار کے
کراچی جو ایک شہر تھا، عالم میں انتخاب
رہتے تھے جہاں منتخب ہی روزگار کے
جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
جی ہاں۔ کراچی۔ جسے اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ کے مطابق دنیا کے ایک سو چالیس شہروں کی فہرست میں آخری دس شہروں میں شامل کیا گیا ہے۔ اور گزشتہ بارشوں کے بعد تو کچھ نہ پوچھیے کہ رہی سہی کسر بھی نکل گئی۔
بقول شاعر۔
ان بارشوں سے دوستی اچھی نہیں فراز
کچا ترا مکان ہے، کچھ تو خیال کر
کراچی منی پاکستان ہے لیکن اس وقت مسائلستان ہے۔ ٹوٹی سڑکیں، بوسیدہ اور فرسودہ انفرا اسٹرکچر، خستہ حال سیوریج کا نظام، پانی کی قلت، ٹریفک کی دقت۔ کس کس بات کا رونا روئیں۔ آج ہم بات کریں گے، کراچی کے ایک بہت بڑے مسئلے کی، جس کی وجہ سے ہماری صحت، ہماری جان۔ انتہائی خطرناک رسک پر ہے۔ اور وہ ہے کراچی کا کچرا۔ اور اس میں موجود پلاسٹک۔
اس وقت کراچی سے روزانہ کم از کم پندرہ ہزار ٹن کچرا نکلتا ہے جس میں سے صرف دس ہزار ہی ٹھکانے لگ پاتا ہے اور باقی سڑکوں، گلی محلوں کی زینت بن جاتا ہے، برساتی نالوں کو بلاک کر دیتا ہے، فٹ پاتھوں اور درختوں میں اٹک جاتا ہے۔ اور کچھ تو خاموشی سے بحیرہ عرب کی گہرائیوں میں اتر جاتا ہے۔
پانچ ہزار ٹن! جی ہاں پانچ ہزار ٹن کچرا روزانہ کراچی کی سڑکوں پر ہی پڑا رہ جاتا ہے، اور ہر آنے والا نیا دن گندگی اور غلاظت کے ان روزانہ اونچے ہوتے ہوئے پہاڑوں کی بلندی میں مزید اضافہ کر دیتا ہے۔
ویسے تو یہ کچرا پورے کا پورا ہی خطرناک بیماریوں سے لبریز اور زہریلے مادوں سے بھرپور ہوتا ہے مگر اس کا سب سے بڑا اور خطرناک حصہ پلاسٹک اور وہ بھی پولیتھین پلاسٹک بیگز پر مشتمل ہوتا ہے۔ ابلتے ہوئے گٹروں، چوک ہوئے نالوں میں پھنسا یہ پلاسٹک۔ انسانوں، جانوروں، پرندوں اور درختوں کے لئے ایک خاموش قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔
ان پلاسٹک پولیتھین بیگز کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ نان ری سائیکل ایبل ہوتے ہیں یعنی دوبارہ استعمال نہیں ہو پاتے اور نہ ہی مٹی میں مل کر گھل جاتے ہیں بلکہ استعمال کے بعد یا تو گٹر اور نالوں کو بلاک کر دیتے ہیں یا پھر ہوا سے اڑ کر سمندر، درختوں اور باغات کو تباہ کرتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر ان کو جلایا بھی جائے تو ان کے دھویں سے خارج ہونے والی گیسیں انسان کو کینسر اور سانس کے امراض میں مبتلا کر سکتی ہیں۔
پان کے ریپر سے لے کر دہی کے شاپر تک، برانڈڈ کپڑوں کے تھیلوں سے لے کر بچوں کی چپس اور چاکلیٹ کی تھیلی تک، یہ پلاسٹک ہزاروں ٹن کی مقدار میں روزانہ کراچی کو کچراچی میں بدل رہا ہے بلکہ بدل چکا ہے۔
شاید یہ بات جان کر آپ کو حیرت ہو کہ دو ہزار اٹھارہ میں صوبہ سندھ میں پولیتھین بیگوں کے استعمال پر سرکاری طور پر پابندی لگا دی گئی تھی جو بدقسمتی سے صرف اعلان تک ہی محدود رہی۔ لیکن یاد رہے کراچی کی اس حالت اور اس سے نجات کی ذمہ داری محض صوبائی، وفاقی یا بلدیاتی حکومتوں پر ہی عائد نہیں ہوتی بلکہ کسی حد تک ہم، عوام بھی اس کے حصہ دار ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ہم، ایک فرد، ایک گھرانے، ایک خاندان کے طور پر کیا کر سکتے ہیں؟
یاد رکھیئے۔ تعمیر کا، تبدیلی کا، پازیٹیویٹی کا۔ پہلا قدم میری اپنی ذات، میرے اپنے گھر، اپنے خاندان اور اپنی گلی محلے سے شروع ہوتا ہے۔ پلاسٹک کے حوالے سے تھیلیوں کا صحیح استعمال بہت ضروری ہے۔
تین طرح کی تھیلیاں ہم روز مرہ خریداری میں استعمال کر سکتے ہیں۔
نمبر ایک۔ ری یوزایبل: یعنی وہ جنھیں ہم پھینکے بغیر دوبارہ یا بار بار استعمال کر سکیں جیسے کپڑے کے تھیلے
نمبر دو۔ ری سائیکل ایبل: جنھیں اگر ہم پھینک بھی دیں تو وہ فیکٹری میں جا کر دوبارہ کسی اور چیز کی تیاری میں استعمال ہو سکے جیسے کاغذ، گتا، یا خاص پلاسٹک جس کے اوپر لکھا ہو کہ یہ ری سائیکل ایبل ہے۔
اور نمبر تین۔ بائیو ڈی گریڈیبل: یعنی ایسا پلاسٹک یا مٹیریل جو استعمال کے بعد مٹی یا کھاد میں مل جائے یا ہوا میں تحلیل ہو جائے اور کچرے اور آلودگی میں اضافے کا باعث نہ بنے۔ سو ہر وہ پلاسٹک یا میٹیریل جو ری سائیکل ایبل یا ری یوزیبل یا بایؤ ڈیگریڈیبل نہ ہو، ہمیں اس کو استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
اس کے علاوہ۔ سبزی اور پھل، کپڑے کے تھیلوں میں خریدیے، جیسے ہمارے بزرگ کامیابی سے استعمال کیا کرتے تھے۔
دکانداروں، بزنس مینوں کو چاہیے کہ بایو ڈی گریڈیبل یا ری سائیکل ایبل پلاسٹک کے تھیلے استعمال کریں۔
پلاسٹک کو جلانے سے گریز کریں، کیونکہ کچرا جلانا نا صرف آلودگی میں بے پناہ اضافہ کرتا ہے بلکہ اس سے خارج ہونے والے دھویں میں موجود زہریلی گیسیں جیسے ڈائی آکسنز، ایسڈ گیسز اور مرکری وغیرہ ہمارے دل اور پھیپھڑوں کے لئے انتہائی مضر ہیں اور دمہ، عارضہ قلب اور کینسر جیسی بیماریوں کا رسک بھی زیادہ کرتی ہیں۔
جہاں تک ممکن ہو کاغذ یا کپڑے کے تھیلے استعمال کریں، کچرے کو چلتی گاڑیوں سے یا سڑکوں پر پھینکنے سے گریز کریں۔
ایک دوسرے کو اس بارے میں آگاہ کریں، چاہے اس آرٹیکل کو شیئر کر کے ہی کرنا پڑے۔ یاد رکھیے، پلاسٹک کا کچرا، زندگی کو کچرا بنا سکتا ہے، ہم سب کی۔