kiya insaan ki fitrat badal sakti hai

ہماری دنیا میں اس سوال کا جواب زیادہ تر یہی ہوتا ہے کہ نہیں، فطرت کبھی نہیں بدل سکتی۔
لیکن روحانی طور پر اس کا جواب مختلف ہے۔

اصل میں ہر انسان کو قدرت نے دو مختلف فطرتیں دی ہیں۔ پہلی فطرت کا نام ہے طبیعت۔ جو جسمانی یا ظاہری فطرت ہوتی ہے۔ اور دوسری فطرت کا نام ہے روحانی فطرت جو باطنی یا اصلی فطرت ہوتی ہے۔

پہلی فطرت جسے ہم جسمانی فطرت یا طبیعت بھی کہ سکتے ہیں، یہ ہم میں اور جانوروں میں مشترک ہوتی ہے۔ ”انسان ایک معاشرتی حیوان ہے“ ، اسی لئے کہا گیا۔ کیونکہ ہماری اور حیوانوں کی طبیعت بنیادی طور پر ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔ جانور پورا دن کھانے پینے کی تلاش میں مگن ہوتے ہیں۔ ہم بھی ہوتے ہیں، البتہ، سوٹ، بوٹ ٹائی پہن کر۔ کچھ جانور گھاس کھاتے ہیں اور کچھ گوشت، ہم بھی کچی سبزیاں اور پکا ہوا گوشت مزے سے کھاتے ہیں۔ جانور بھی افزائش کے متلاشی ہوتے ہیں، یہ ہماری بھی بنیادی خواہش ہے۔ جانور بھی سوتے ہیں، ہم بھی نیند کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ حیوانوں کو بھی قدرتی حاجات ہوتی ہیں، ہم بھی روزانہ فطری ضروریات سے فارغ ہوتے ہیں۔ ان سب سے بڑھ کر وہ خصوصیات جو ہم میں اور سب حیوانوں میں مشترک ہیں جیسے :

تکلیف سے بھاگنا
آرام اور مزے کی طرف جانا
اپنی بقا کی کوشش کرنا
اور خود غرضی، یعنی اپنی ذات کے فائدے اور بقاء کو دوسرے پر ترجیح دینا
یہ حیوانی فطرت جسیے ہم طبیعت بھی کہتے ہیں، بڑی حد تک، تبدیل ہو سکتی ہے، ہمیشہ ایک سی نہیں رہتی۔

اب ہے دوسری فطرت۔ جو روحانی فطرت ہے۔ اور یہی حقیقی فطرت ہے۔ یہ فطرت سوائے انسان کے کسی جاندار میں نہیں ہوتی۔ یہ چھپ سکتی ہے مگر کبھی بدل نہیں سکتی، آپ اس کا انکار کر سکتے ہیں مگر اسے ختم نہیں کر سکتے، ہمیشہ اس کا رخ قدرت یعنی ہمارے خالق کی طرف ہی رہتا ہے۔ بالکل ایسے جیسے سمندر میں موجود کسی جہازکا کمپاس یا قطب نما۔ جہاز کا کپتان جہاز کا رخ تو موڑ سکتا ہے مگر وہ قطب نما ہمیشہ مشرق کو مشرق اور جنوب کو جنوب ہی بتاتا رہے گا۔ سو اصل فطرت یعنی روحانی فطرت سب کی ایک ہوتی ہے، سب کی نیک ہوتی ہے۔ اسے ہمارے خالق نے بنایا ہے اور یہ ہمیشہ ہمیں ہمارے خدا ہی کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔

اور اب مجھے کہنے دیجیے، ہمارے ذہنی، نفسیاتی، معاشی اور معاشرتی مسائل اس وقت شروع ہوتے ہیں جب ہم اپنی طبیعت کو اپنی فطرت پر ترجیح دیتے ہیں۔ جب ہم اپنے جسم کو ہی اپنا وجود سمجھنے لگتے ہیں۔ جب کہ اصل میں ہمارے جسم کی مثال محض ایک برتن کی سی ہے جبکہ اس برتن کے اندر موجود ہماری روح ہمارا اصل وجود ہے۔ جب ہمیں اپنا اصل ہی نہیں معلوم ہو اور جب ہم فطرت اور طبیعت میں فرق نہیں کر سکتے تو ہم اپنے جسم کو ہی اپنا آپ، اپنا سب کچھ سمجھنے لگتے ہیں اور نتیجتاً ہماری حیوانی خواہشات اور جبلتیں ہم پر غالب آ جاتی ہیں۔

یہ جو خود غرض، کرپٹ، بد اخلاق اور مجرم لوگ ہوتے ہیں، اصل میں یہ اپنی طبیعت کے ہاتھوں مجبور ہو جاتے ہیں، ان کا غصہ، ان کا خوف، ان کی لالچ، ان کی ہوس، ان کی حیوانی جبلتیں ان کی انسانی فطرت پر غالب آ جاتی ہیں، یہ اپنی جسمانی ضروریات کے غلام بن کر اپنی فطرت کو چھپا دیتے ہیں، دبا دیتے ہیں اور پھر ان ہی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی فطرت بری ہے، یہ کبھی نہیں بدلیں گے۔ درحقیقت ہم ان کی طبیعت کی بات کر رہے ہوتے ہیں، فطرت کی نہیں۔

اور اب آٓخری بات، طبیعت کی مثال ایک کیٹر پلر کی سی ہے، ایک حقیر کینچوے جیسی، گلے سڑے پتوں پر پلنے والے، کنویں کے مینڈک کی طرح، جس کا کچھ کام نہیں سوائے ایک کیڑے، ایک حیوان کی طرح کھانے، پینے اور زندہ رہنے کے۔ دوسری طرف فطرت ہوتی ہے کیا ہوتی ہے؟ جب یہ کیٹر پلر ایک تتلی بن جائے۔ خوشبو دار پھولوں پر بیٹھنے والی تتلی۔ آزاد ہواؤں میں پرواز کرنے والی تتلی۔

طبیعت ہمارے جسم کو چلاتی ہے ہے، فطرت ہماری روح کو چلاتی ہے۔

انسان اس دنیا کی امتحان گاہ میں اسی لئے ایک مشن پر بھیجا گیا ہے کہ آیا وہ کیٹر پلر کی طرح حیوان بنا رہتا ہے یا پھر، سارے مشکل مراحل طے کر کے ایک تتلی بن کر جنت (Aliens) کی طرف پرواز کر سکتا ہے۔ ہم اس دنیا میں خلائی مخلوق یعنی ایلینز کو تلاش کرتے ہیں جبکہ اصل میں ہم خود اس دنیا میں ایلین ہیں اور اس زمین پر ایک جانور کے جسم میں بھیجے گئے ہیں کیونکہ یہاں زندہ رہنے کے لئے دوسرے جانوروں والا جسم ضروری ہے۔

مسئلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب ہم تیس چالیس سال اس جسم میں گزارنے کے بعد اس جسم کو ہی اپنی شناخت، اپنا سب کچھ سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ دنیا اور اس کا جسم عارضی ہے، فانی ہے، ہمیشہ رہنے والا نہیں۔ سو جب یہ جسم ہی فانی ہے ۔ اگر یہ معذور ہو، اس میں کوئی خرابی ہو یا یہ خوبصورت، ہو، بدصورت ہو، چھوٹا ہو، لمبا ہو، کالا ہو، گورا ہو، تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ہمارے امتحان کا نتیجہ ہمارے جسم پر نہیں بلکہ ہماری روح پر منحصر ہے۔ یہ جسم ہماری موت پر ہی گل سڑ کر مٹی ہو جائے گا، ہاں ہمارے روح باقی رہے گی۔

مگر ہمارا امتحان یہیں شروع ہوتا ہے کہ آیا ہم جانور کے جسم کو رکھنے کے باوجود اپنی انسانی روح کو پہچانتے ہیں، اپنی اصلیت یعنی اپنی فطرت کو سمجھتے ہیں اور اس کو فالو کرتے ہیں یا مکمل حیوان ہی بن جاتے ہیں۔ فیصلہ ہمارا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس بات کو سمجھ لیں کہ ”میں“ کچھ نہیں۔ میرا جسم کچھ نہیں۔ سب کچھ روح ہے۔ وہ جو شعر ہے ناں:

سارا عالم ہو کا ہے
جھگڑا میں اور تو کا ہے