ڈاکٹر سید اکرام
لوگوں کی زہریلی ذہنیت اور اس کی علامات
لہجہ یار میں اک زہر ہے بچھو کی طرح
وہ مجھے آپ تو کہتا ہے مگر ”تو“ کی طرح
میں مظلوم ہوں، سب یا فلاں انسان میرے ساتھ کبھی اچھا نہیں رہا، لوگ میرا فائدہ اٹھاتے ہیں، میرے ساتھ اچھا نہیں ہوا، فلاں کا رویہ کبھی میرے ساتھ اچھا نہیں رہا۔
آپ یہ سب جملے تو اکثر سنتے ہی ہوں گے۔ لیکن جب ان باتوں کی تکرار بار بار، ایک ہی انسان کی طرف سے ہونے لگے تو ہوشیار ہو جائیں کہ شاید آپ کا واسطہ زہریلی ذہنیت یا ٹاکسک پرسنالٹی سے پڑ رہا ہو۔ سوال یہ ہے کہ یہ معلوم کیسے ہو کہ فلاں شخصیت کی ذہنیت زہریلی ہے؟ تو اس کا جواب نیچے دی گئی علامات میں پوشیدہ ہے۔ تاہم، یاد رہے کہ ضروری نہیں کہ یہ ساری علامات اور نشانیاں ان میں موجود ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ مندرجہ زیل علامات میں سے محض دو یا تین ہی موجود ہوں لیکن ان کی موجودگی آپ کو کم از کم زہریلے پن کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں خبر دار کر دے گی۔
چھٹی حس: آپ اپنی کی چھٹی حس آپ کو پہلی نظر میں بتائے گی کہ اس انسان یا اس کی فیملی میں کچھ ٹھیک نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ آپ کا دل آپ کے دماغ پر اعتبار نہ کرنا چاہے۔ لیکن کچھ نہ کچھ دال میں کالا شروع سے ہی لگے گا۔
انا پرست: ان میں انا کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی اصلاح کرنی بہت زیادہ مشکل ہوتی ہے۔ یہ جھکنے سے، پہل کرنے سے دور بھاگتے ہیں۔ ان کا نفس امارہ بہت مضبوط ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ آئینہ نہیں دیکھ سکتے۔ زہریلی ذہنیت آپ کو محاسبے سے، خود احتسابی سے روکتی ہے۔ آپ میں یہ صلاحیت ہی نہیں ہوتی کہ اپنے عیبوں کو شناخت کر سکیں۔ یہ آئینہ حالات بھی ہو سکتے ہیں، کوئی واقعہ بھی ہو سکتا ہے، کوئی دوسرا انسان بھی ہو سکتا ہے جو آپ کو احساس دلائے۔
لیکن جواب میں زہریلے لوگ ہر قصور کے لئے عذر دیتے ہیں، کبھی اپنی غلطی تقسیم نہیں کرتے۔ میرا کوئی قصور نہیں تھا۔ میں کبھی غلط نہیں ہو سکتا ۔ میں ہی ہمیشہ صحیح ہوتا ہوں۔ سو: دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے، یہ ہمیشہ خود کو ہی صحیح سمجھتے ہیں۔ اپنی غلطی کو کبھی تسلیم نہیں کرتے۔ میری ہی بات حرف آخر ہے۔ جواب الجواب کرتے رہیں گے، کبھی خاموش نہیں ہوں گے کیونکہ یہ خاموشی کو، جھکنے کو اپنی ہار اور اپنی ذلت سمجھتے ہیں۔
مظلومیت کا رونا رونے والے : ہم مظلوم ہیں۔ سب کی ہمدردی چاہیے۔ ہمارے اوپر، ہمارے پورے خاندان کے اوپر ظلم ہوا ہے۔ ہم بے چارے ہیں۔ اگر خاتون زہریلی ہو تو میں مظلوم، میرے بھائی مظلوم، بھابھیاں ظالم، والدین مظلوم اور بہوئیں شاطر و چالاک۔ اور اگر مرد زہریلا ہو تو میرے ساس سسر، میری سالے وغیرہ سب تیز طرار لیکن میں خود بہت سیدھا سادا۔ ہمیں کبھی انصاف نہیں ملا۔ ہم تو بہت معصوم ہیں جس کا فائدہ ہم سے دوسرے اٹھاتے ہیں۔
جذباتی بلیک میلر (گیس لائٹنگ) : زہریلی ذہنیت والے لوگ آپ کو جذباتی طور پر بلیک میل کرتے ہیں، طعنے دینا، ماضی یاد دلانا اور اپنے ماضی کا اپنے حال سے تقابل کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہوتا ہے۔ پہلے تو میرے پاس یہ تھا، اب کچھ بھی نہیں۔ پہلے میرے یہ ٹھاٹ تھے، اب تو سب مجھ سے چھین لئے گئے۔ جو میرے ساتھ ہو رہا ہے اس میں میری کوئی غلطی نہیں بلکہ دوسرے اس کے ذمہ دار ہیں اور اگر میرے ساتھ یہ نہیں کیا گیا تو میں یہ کردوں گا یا کر دوں گی۔ میں نوکری سے نکال دوں گا، میں یہ گھر چھوڑ دوں گی، مجھے طلاق چاہیے، وغیرہ وغیرہ۔ یعنی بدمعاشی اور غنڈہ گردی سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ اور آپ کی ساری طاقت، ساری انرجی نچوڑ لیتے ہیں ہو اور آپ ان سے ملنے کے بعد خود کو خالی محسوس کرتے ہیں۔
میرے بچپن میں یہ میرے بہن بھائیوں نے غلط کیا یا میرے دوستوں نے مجھے دھوکہ دیا یا میرا موڈ خراب کر دیا تو اس کا انتقام میں اپنے دوسرے قریبی لوگوں سے لوں گا۔ اسی طرح اگر یہ خود ٹینشن میں ہیں۔ تو یہ اس کا حل دوسروں سے لڑ کر نکالیں گے۔ یہ جان بوجھ کر ایسے کام کریں گے جن سے وہ آپ کو زچ کر سکیں آپ کو تکلیف دے سکیں تا کہ وہ خود تسکین محسوس کر سکیں۔ یعنی اپنا زہر دوسروں کے اندر انڈیل کر سکون او خوشی محسوس کریں گے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اس کے باوجود ان کی طبیعت بہتر نہیں ہوتی بلکہ خراب سے خراب تر ہی ہوتی جاتی ہے۔
خود غرض: یہ زیادہ تر لینے والے ہوتے ہیں اور دینے والے بہت کم۔ اگر کچھ دیں گے بھی تو احسان جتا کر۔ اور کچھ بھی لیں گے تو اپنا حق سمجھ کر۔
شکی: یہ نا صرف آپ پر شک کرتے ہیں بلکہ ان کی صحبت میں رہ کر آپ کو خود پر بھی شک شروع ہو جاتا ہے، اپنے کام، اپنی نیت مشکوک لگنے لگتی ہے۔ سو زہریلے لوگوں کی ذہنیت دوسروں کے بارے میں حسن ظن نہیں بلکہ سوئے ظن سے کام لیتی ہے۔
احساس کم تری کے شکار: یہ کبھی مطمئن نہیں ہوتے، ذمہ داری سے بھاگتے ہیں۔ یہ حاسد اور بغض رکھنے والے ہوتے ہیں۔ ان میں خود اعتمادی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔
جھوٹ: ہم سب نے کبھی نہ کبھی کوئی چھوٹا یا بڑا جھوٹ، کسی نا کسی عمر میں بولا ہی ہوتا ہے۔ لیکن جھوٹ بول کر مکر جانا یا اپنے ہی کسی کہے ہوئے سچ سے ہی مکمل طور پر مکر جانا زہریلے لوگوں کی خاص نشانی ہوتی ہے۔ یہ پے درپے اور منہ پر جھوٹ بولنے کے ماہر ہوتے ہیں۔
بغض اور حسد: یہ لوگ بلا کے حاسد ہوتے ہیں اور اگر کسی نے ان کے ساتھ کچھ زیادتی کی بھی ہو تو ہمیشہ اسے یاد رکھتے ہیں اور اس کو اپنے بغض اور کینے کی وجہ بنا کر دل میں رکھتے ہیں اور کبھی نہیں بھولتے۔
حل کیا ہے؟
بد قسمتی سے زہریلے لوگوں کی اکثریت شفایاب نہیں ہو سکتی، چہ جائیکہ یہ کہ اللہ ہی ان کو شفا دے اور معجزہ ہو جائے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ کو کینسر یا ایڈز یا ہیپاٹائٹس ہو نے کے بعد معلوم ہو کہ میری بیماری تو اب آخری اسٹیج پر ہے۔ اس کے باوجود مایوسی کفر ہے۔ انسان کے ہاتھ میں کوشش اور نیت ہے۔ نتیجہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔
خدا سے دعا کریں : آیت کریمہ کا ترجمہ پڑھیں۔ ”اے خدا تیری سوا کوئی معبود نہیں۔ تو پاک اور میں ہی قصور وار ہوں“ ۔ سوچیں، روزانہ رات کو سونے سے پہلے خود کا محاسبہ کریں۔ کہیں میری اپنی غلطی تو نہیں، میرا اپنا قصور تو نہیں۔ صبر اور دعا کا دامن کسی حال میں نہ چھوڑیں۔
دوسروں سے اپنے بارے میں مشورہ لیں : کہیں آپ خود تو زہریلی ذہنیت کا شکار نہیں؟ پروفیشنل مدد لیں اگر ماہر نفسیات یا ڈاکٹر یا کسی عالم با عمل کے پاس جا سکیں تو بہترین ہے۔ اس سے اپنی ہسٹری ڈسکس کریں۔ اور بتائیں آپ دوسروں کے بارے میں اور دوسرے آپ کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔
بچیں اور استقامت دکھائیں : اگر ایسے لوگ دوستوں یا کولیگز میں شامل ہیں یا تو ان کو اپنے پاس سے نکال دیں یا خود ان کے حلقے سے نکل آئیں۔ ان سے بچنے کی کوشش کریں۔ ان سے بحث نہ کریں ورنہ یہ خود آپ کو خالی کر دیں گے۔ سچن ٹنڈولکر اور بابر اعظم کو میدان میں دیکھیں۔ ان سے کوئی کتنی ہی اونچی باونسر کیوں نہ مار دے، کتنی ہی بڑی گالی کیوں نا دے دے۔ آپ نے ان کو کبھی چیختے چلاتے اور غصہ کرتے نہیں دیکھا ہو گا۔
اور اگر خدا نا خواستہ یہ آپ کے رشتے دار ہیں، بہن بھائی یا شریک حیات یا حتی ٰ کہ والدین میں سے کوئی اگر ایسی ذہنیت رکھتا ہے تو اسے نظر انداز کرنا سیکھنا پڑے گا۔ خونی رشتے داروں سے قطع تعلق ہر گز نہ کریں لیکن ان کا اثر لینا چھوڑ دیں۔ زیادہ دیر ان کے پاس گزارنے سے گریز کریں۔ کیونکہ زہریلا پن متعدی ہوتا ہے۔ انفیکشن کی طرح لگتا ہے۔ جتنا زیادہ وقت ان لوگوں کے ساتھ گزاریں گے، آپ کے اپنے ذہنی طور پر بیمار ہونے اور زہریلے ہونے کا خدشہ بڑھتا جائے گا۔ آپ دوسروں کے عمل کو کنٹرول نہیں کر سکتے لیکن اس پر آپ کو رد عمل کیسے دینا ہے، یہ آپ کے ہاتھ میں ضرور ہے۔ رد عمل کے بجائے تاثر دینا سیکھیں۔ اور یہ جذباتی ذہانت اور صبر کی کنجی ہے۔