Dr. Syed Ikram

پورنوگرافی کا نشہ

ڈاکٹر سید اکرام

جنوری دو ہزار اٹھارہ میں زینب کے کیس نے نا صرف پورے پاکستان بلکہ دنیا جہان میں درد دل رکھنے والوں کو دہلا کر رکھ دیا۔ درندگی اور سفاکی کی تو یوں بھی اور بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں، مگر سوشل میڈیا کی پاور نے اس کیس کو معاشرے میں ایسے روح فرسا واقعات کو اجاگر کرنے اور ان کے ذمہ داروں کو بروقت قرار واقعی سزا دلوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بدقسمتی سے ابھی تک ایسے واقعات رکنے تو کیا تھے، کم بھی نہیں ہو سکے۔

ابھی حال ہی میں ہوس کے پجاریوں، انسان نما درندوں کے ہاتھوں کراچی میں ننھی مروہ کے اغوا اور سفاکانہ قتل اور پھر لاہور موٹر وے پر ننھے بچوں کے سامنے ان کی ماں کے ساتھ اجتماعی زیادتی اس بات کا ثبوت ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ایسے واقعات کو محض معاشرتی، مذہبی اور اخلاقی حوالوں سے نہ دیکھیں بلکہ ان جسمانی اور نفسیاتی عوامل کا بھی جائزہ لیں جن کے نتیجے میں ایسے تکلیف دہ واقعات روز بروز بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔

اور ہمار ا موضوع بھی کچھ اسی حوالے سے ہے۔ ایک ایسا مسئلہ جو خاموشی سے ہر گھر کی دہلیز پر پہنچ چکا ہے اور جو ایسے سفاکانہ واقعات کے پیچھے کار فرما عوامل میں سے ایک ہے۔

زرا تصور کیجئے۔ اگر آپ کوئی ڈرگ یا منشیات استعمال کیے بغیر، پاوڈر سونگھے بغیر، کوئی انجیکشن لگائے بغیر کسی ایسے نشے کی لت میں گرفتار ہو جائیں جس کی نہ کوئی خوشبو ہو اور نہ دھواں اور یہ آپ کو کہیں کا نہ چھوڑے۔

کیا آپ نے کبھی سوچاہے کہ ہمارا اپنا ذہن محض کچھ دیکھ کر ہمارے بدن میں مکمل نشے کی کیفیت پیدا کر سکتا ہے؟

اور اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ کہ اگر یہ نشہ کوکین اور ہیروئن جیسے نشوں سے بھی زیادہ خطرناک ہو تو؟

جی ہاں پورنو گرافی یا فحش مواد کے استعمال کی لت بھی ایسا ہی نشہ ہے۔ جدید سائنسی تحقیق سے اب یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ پورنوگرافی یا فحش مواد کا استعمال انسانی صحت کے لئے بہت مضر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ جیسے لبرل اور سیکیولر ملک کی کم از کم چھے ریاستوں میں بھی پورنوگرافی کو پبلک ہیلتھ رسک قرار دے دیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پورنوگرافی اب صرف مذہبی اور اخلاقی مسئلہ نہیں رہی بلکہ انسانی صحت کے لیے ایک بڑا رسک اور بیماری کا روپ دھار چکی ہے۔

کیوں؟ کیونکہ تحقیق، تجربے اور اسٹدیز نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ پورنوگرافی کا استعمال انسان کی دماغی اور جسمانی صحت کے لئے، اس سے جڑے رشتوں کے لئے، خاندان کے لئے، اور پورے معاشرے کے لئے ایک زہر کی حیثیت رکھتا ہے اور ریپ اور جنسی اور جسمانی تشدد کو پروان چڑھاتا ہے۔

پورنوگرافی کی لت یا ایڈیکشن کیسے پڑتی ہے اور یہ کیسے معلوم ہوتا ہے کہ اس بھیانک عادت نے انسان کو آکٹوپس کی طرح اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے؟

اس کے لئے ہمیں پہلے یہ دیکھنا پڑے گا کہ ایڈیکشن یا لت کہتے کسے ہیں۔ کم از کم باون ایسی اسٹڈیز ہیں جن میں کسی بھی ایڈیکشن یا لت کو ان پانچ چیزوں سے پہچانا گیا ہے۔ اس چیز کی بھوک یا طلب محسوس ہونا ٓانسان کے رویئے پر اس عادت کا غلبہ رہنا وقتی اطمینان خود پر قابو ختم ہوجانا استعمال کے بعد منفی یا برے اثرات ٓآئیے اب دیکھتے ہیں کہ پورنوگرافی آخر ہوتی کیا ہے اور کیوں اسے ایڈیکشن کہا جا سکتا ہے۔

ٓآکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق پورنوگرافی کوئی بھی ایسا مواد یا میٹیریل ہے جو انسان کی جنسی خواہش کو بھڑکائے یا متحرک کر دے۔ اب چاہے وہ تصویر کی شکل میں ہو یا تحریر کی صورت میں، آواز میں ہو یا حرکت کرنے والی مووی میں۔ یعنی ایک کتاب سے لے کر آپ کی کمپیوٹر اسکرین تک۔ آپ کے موبائل میں موجود واٹس ایپ میں شیئر کیا جانے والا کلپ ہو یاپھر لیپ ٹاپ پر دیکھی جانے والی ویب سائٹ، پورنوگرافی کچھ بھی ہو سکتی ہے۔

جدید سائنسی تحقیق سے یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ پورنوگرافی ایک ڈرگ جیسے ہیروئن یا آئس کی طرح ہمارے دماغ سے کھیلتی ہے۔ یعنی وہ بات جو پہلے صرف تجسس اور تجربے سے شروع ہوتی ہے، آہستہ آہستہ ہماری چاہت اور پھر ضرورت بن جاتی ہے۔ اور ہم غیر محسوس طریقے سے اس کے اتنا عادی بن جاتے ہیں کہ اس کے بغیر رہ نہیں پاتے۔ ہمارا ذہن دھیرے دھیرے اس کا اتنا عادی بن جاتا ہے کہ

ہمیں روز بروز نہ صرف اس کی مقدار بڑھانی پڑتی ہے بلکہ نت نئی ورائیٹیوں اور اقسام کی تلاش بھی کرنی پڑتی ہے۔

ضروری نہیں کہ وہ تمام لوگ جو پورنوگرافی استعمال کرتے ہیں وہ اس کے عادی بن جائیں لیکن اس کا فری یا مفت ہونا، آسانی سے گھر بیٹھے آپ کے موبائل یا کمپیوٹر پر میسر ہونا وہ باتیں ہیں جن سے اس لت کا پڑنا بہت آسان ہو گیا ہے۔ آج دنیا میں کم از کم پچیس ملین پورن ویب سائٹس ہیں جن سے ہر سال چودہ بلین ڈالر بنائے جاتے ہیں۔

پورنوگرافی کی لت کے نتائج اس سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ آج ایک عام بچہ گیارہ سے بارہ سال کی عمر میں پورن سے ایکسپوزڈ ہو جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اور شہروں میں آٹھ سے سولہ سال تک کی عمر کے نوے فیصد بچے کبھی نہ کبھی پورن دیکھ چکے ہوتے ہیں۔ آج پورنوگرافی کے باقاعدہ استعمال کرنے والوں میں مرد، عورتیں، لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں۔ شروع میں ہم غیر محسوس انداز میں اپنے برین کو ٹرین کرتے ہیں کہ آٓج جو ہم نے دیکھا وہ ہمیں اچھا لگا سو ہم اس کو دوبارہ دیکھیں گے۔

مگر پھر ہر بری لت کی طرح ہمارا دماغ پورنوگرافی سے آہستہ آہستہ کم حساس ہوتا جاتا ہے۔ سو بعد میں جس طرح نشے کی مقدار آہستہ آہستہ زیادہ اور جلدی جلدی چاہیے ہوتی ہے، بالکل اسی طرح ہمارا دماغ بھی پورنوگرافی کی زیادہ شدید اور عجیب اقسام کو تلاش کرتا ہے۔ اور ہمیں اس کو دیکھنے کی جلدی جلدی طلب ہونے لگتی ہے۔ اور پھر ہوتے ہوتے یہ ہماری زندگی کا لازمی جزو بن جاتی ہے۔ ،

پورنوگرافی کے نقصانات کیا ہیں؟

پورنوگرافی کے نقصانات دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک تو انسان کی انفرادی زندگی پر اور دوسرا انسان سے جڑے خاندان اور معاشرے پر۔

پہلا نقصان تو یہ کہ پورنوگرافی کے یوزرز، حقیقی دنیا پر تخیلاتی دنیا یعنی فینٹیسی ورلڈکو ترجیح دینے لگتے ہیں۔ یعنی ان کو اصلی، گوشت پوست کے انسان سے زیادہ اسکرین پر نظر آنے کرداروں کے جسموں میں کشش محسوس ہونے لگتی ہے۔ اور ان کا ذہن عام اور حقیقی انسانوں کو بھی سیکچوئل آٓبجکٹس یعنی چلتی پھرتی جنسی چیزوں کی شکل میں دیکھنا شروع کر دیتا ہے۔

یہ چیز شادی شدہ جوڑوں کی زندگی میں بھی تباہی لا سکتی ہے کیونکہ ایک انسان اپنے پارٹنر یا شریک حیات کے جسم اور جنسی افعال کا موازنہ کرنے لگتا ہے ان لوگوں سے جن کو وہ پورنوگرافی میں اسکرین پر دیکھتا ہے اور پھر مایوس ہوتا ہے۔ یہی چیز جائز رشتے میں اطمینان ختم کر دیتی ہے اور آگے چل کر دھوکہ دہی یا فریب میں بدل جاتی ہے اور بات طلاق تک پہنچ سکتی ہے۔ آج بہت سے سائنسدان اور ریسرچرز اس بات سے متفق ہیں کہ پورنوگرافی کے استعمال سے نہ صرف ہمارے دماغ میں کیمیاوی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں بلکہ حیران کن طور پر اس سے ہمارے دماغ کی اندرونی ساخت بھی بدل جاتی ہے۔

دو ہزار چودہ میں جرمنی میں ہونے والی ایک اسٹڈی کے مطابق وہ لوگ جو پورنوگرافی کے عادی تھے، ان کے دماغ کا ایک خاص حصہ یعنی کہ گرے میٹر نارمل لوگوں کی نسبت سکڑ گیا تھا۔ یاد رہے کہ گرے میٹر ہمارے دماغ کا وہی حصہ ہوتا ہے جو ہماری زندگی میں اہم فیصلے کرنے میں کردار ادا کرتا ہے۔ اور ہمارے جذبات، احساسات، یاد داشت اور خود پر قابو رکھنے کے حوالے سے بھی بہت اہم ہے۔ مگر اچھی بات یہ ہے کہ انسان جب اس بری عادت سے مکمل طور پر جان چھڑا لیتا ہے تو یہ دماغی تبدیلیاں واپس بھی ہو سکتی ہیں، نارمل بھی ہو سکتی ہیں۔

پورنوگرافی کا دوسرا بڑا نقصان ذہنی اور جسمانی مسائل ہیں جیسے مردوں اور خواتین دونوں میں ذہنی دباؤ، ازدواجی خوف یا ڈر، جنسی کم زوری اور چڑچڑاہٹ وغیرہ۔ پورنوگرافی کا زیادہ استعمال اکثر ازدواجی تعلقات میں توقعات کو ابنارمل حد تک بڑھا دیتا ہے بلکہ کبھی کبھی تو انسان اپنے شریک حیات کو مکمل طور پر ایک جنسی چیز یا جسم کے طور پر دیکھتا ہے نہ کہ ایک مکمل جسمانی و روحانی رشتے کے طور پر۔

سو ایک طرف توقعات بہت بڑھ جاتی ہیں مگر دوسری طرف ان توقعات کو پورا کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے جس کا نتیجہ رشتوں میں مایوسی، بے چینی اور ڈپریشن کی صورت میں نکلتا ہے۔

پورنوگرافی کے معاشرے پر نقصانات سب سے زیادہ خطرناک ہیں۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ پورنوگرافی کا استعمال انسان کے لئے گھر کی تنہائی میں بھی نا کافی ہو جاتا ہے اور وہ سارے تجربات اور حیوانی کام جو اس نے سکرین پر دیکھے ہوتے ہیں ان کو حقیقی دنیا میں انجام دینے کی ابنارمل خواہش جاگ اٹھتی ہے۔ اور وہ بالآخر جرم کی دنیا میں قدم رکھ دیتا ہے اور زیادتی، بچوں کے ساتھ زیادتی اور اغوا اور قتل جیسے واقعات جنم لیتے ہیں۔

کئی اسٹڈیز سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پورنوگرافی اور ابنارمل اور پر تشدد جنسی رویئے میں براہ راست تعلق ہوتا ہے۔ کم از کم ایک سو بائیس اسٹڈیز جو سات ممالک میں کی گئیں میں یہ معلوم ہوا کہ پورنوگرافی اور جسمانی، زبانی اور جنسی تشدد میں تعلق ہوتا ہے، مردوں اور خواتین دونوں میں ایسے لوگ ہر لحاظ سے پر تشدد اور انتہا پسند بن سکتے ہیں۔ اسی طرح واشنگٹن اسٹیٹ میں کی گئی ایک اسٹڈی کے مطابق پچیس فیصد قاتلوں نے یہ بات تسلیم کی کہ پورنوگرافی کا ان سے سرزد ہونے والے قتل میں ہاتھ تھا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حل کیا ہے؟

اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے مسئلے کو تسلیم کیا جائے۔ کہ یہ نا صرف ہمارے معاشرے میں وجود رکھتا ہے بلکہ دن بدن بڑھ رہا ہے۔ ہمارے یہاں تو پورنوگرافی پر بات کرنے کوہی ”ٹابو“ سمجھا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے اس قبیح عادت کے شکار لوگ اپنا حال شرمندگی، احساس جرم اور جھجک کی وجہ سے کسی کو نہیں بتا پاتے، اس کا حل نہیں نکال پاتے۔

محض پابندی لگانا، یا سنسر کر دینا اس مسئلے کا مستقل حل نہیں۔ یہ مسئلہ کونسلنگ یعنی سمجھانے اور سمجھے سے ہی حل ہو سکتا ہے۔ سیکس ایجوکیشن یعنی جنسی تعلیم کا تصور ہمارے مذہب تک میں موجود ہے لیکن اس پر عمل

بالکل نہیں کیا جاتا۔ نتیجتاً ً بچے تجسس یا حادثات کی وجہ سے یہ معلومات غلط ذرائع سے غلط وقت پر حاصل کرتے ہیں۔

جبکہ اصل میں یہ سب والدین کو یا والدین کے اعتماد والے ٹیچرز کو بچوں کو بتانا چاہیے

خود پر قا بو یعنی سیلف کنٹرول اس تالے کی چابی ہے۔ اس مسئلے کا حل ہے۔ ہم اپنے دماغ کو اپنے ذہن کو دوبارہ ٹرین کر سکتے ہیں، اس کی تربیت کر سکتے ہیں اور اس کو عادت ڈال سکتے ہیں ”نا“ کہنے کی، جب بھی پورنوگرافی دیکھنے کی خواہش ہو۔ اپنے دماغ کا فوکس تبدیل کرنا، اسے مثبت مصروفیات کی طرف راغب کرنا بھی بہت مددگار ہے۔ یاد رکھئے، پورنوگرافی کا استعمال ہر دفعہ ہماری صرف سوچ سے، ہمارے ذہن سے، ایک خیال سے ہی شروع ہوتا ہے۔

ہم سوچتے رہتے ہیں اور آخر کار جب ہماری خواہش عقل پر غالب آجاتی ہے تو ہم ہر دفعہ اس بری عادت کا ارتکاب کرتے ہیں اور بعد میں پشیمان ہوتے ہیں۔ سو ضروری ہے کہ اس بارے میں سوچیں بھی مت کیونکہ یہ سوچ پھر عمل میں بدل جاتی ہے۔ اچھے دوستوں میں رہئے، اچھے ٹیچرز کے ساتھ وقت گزاریئے جو آپ کے خود پر قابو کو مضبوط بنائیں نہ کہ اسے کم زور کریں۔ کوشش کیجئے کہ زیادہ تر، پاک صاف یا با وضو رہیں۔

والدین کا کردار سب سے اہم ہے۔ ان کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو موبائل، کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ دے کر بھول نہ جائیں۔ جس طرح ان چیزوں پر مکمل پابندی ٹھیک نہیں اسی طرح مکمل آزادی دینا بھی درست نہیں۔ یہ چیزیں ضرور دیں مگر ان پر چیک ضرور رکھیں۔ اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کی اولا د ان آلات کو گھر کی کھلی، کامن جگہ پر استعمال کرے نا کہ اپنے کمرے کی تنہائی میں۔ اس کے علاوہ ان اشیا کے غلط استعمال کے بارے میں بھی کم عمری میں ہی ایجوکیٹ کریں اس سے پہلے کہ بچے باہر کی ظالم دنیا کے ذریعے ان باتوں کے بارے میں جانیں۔

اپنی اولاد کو بتائیں کہ اسکرین پر نظر آنے والی دنیا جعلی ہے، غیر حقیقی ہے، سو اس کے ذریعے حاصل ہونے والا اطمینان، اور مزا بھی جعلی ہے، وقتی ہوتا ہے مگر اس کے نتیجے میں ہونے والی خرابی اور پشیمانی ہمیشہ باقی رہ جاتی ہے۔ جو کچھ آنکھوں کا کیمرہ ذہن کے میموری کارڈ پر محفوظ کر لیتا ہے، وہ کبھی ڈیلیٹ نہیں ہو پاتا۔

ان کو اس بات سے آگاہ کریں کہ اصل لطف، اطمینان اور سکون ایسے رشتوں میں ہی ہے جن کی بنیاد محبت اور احترام پر ہوتی ہے، ظاہری کشش، لالچ اور ہوس پرنہیں۔ کبھی کبھی اپنی اولاد کا دوست بن کر بھی سوچنا اور سمجھانا پڑتا ہے اس سے پہلے کہ وہ آپ کو اپنا دشمن سمجھنے لگے۔