Dr. Syed Ikram

سکوں محال ہے قدرت کے کار خانے میں

ڈاکٹر سید اکرام

عصر حاضر کو تحقیق و ترقی اور تہذیب و تمدن کا دور کہا جاتا ہے۔ نت نئی ایجادات اور دریافتوں نے آج کے انسان کے حوصلے بہت بلند کر دیے ہیں اور وہ پہاڑوں کی بلندیوں اور سمندر کی گہرائیوں کو ناپنے کے بعد آفتاب و ماہتاب پر کمند یں ڈالنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ مہینوں کی مسافت کو گھنٹوں میں طے کر لینا ایک معمولی بات ہے۔ سوشل میڈیا نے اب گھر گھر میں اسٹار اور سلبریٹیز بنا دی ہیں۔ کسی زمانے میں صرف ایک ٹی وی چینل ہو کرتا تھا۔ اب سب کے اپنے یو ٹیوب چینلز ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس مادی عروج و ترقی، ظاہری چمک دمک اور سامان راحت کی اس کثرت سے انسان کو چین و سکون اور امن و اطمینان حاصل ہو گیا ہے؟ قلب کو تسکین اور روح کو آسودگی مل گئی ہے؟ اور کیا واقعی تہذیب و تمدن کے ان پرشور نعروں کی بدولت آج کا انسان پہلے سے زیادہ شائستہ اور مہذب ہو گیا ہے ؟

آرام و راحت کے یہ اسباب جس قدر بڑھتے جا رہے ہیں قلب کے اضطراب اور روح کی بے چینی میں بھی اسی قدر اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دولت بڑھی ہے تو بھوک بھی بڑھ گئی ہے۔ کپڑوں کے برانڈز میں اضافے نے انسانیت کے ننگے پن کو ڈھاپنے کے بجائے مزید آشکار کر دیا ہے۔ ہوس اور حرص نے جرم کو بھی بڑھا دیا ہے۔ سب کچھ ہے۔ اگر نہیں ہے تو سکون نہیں، اطمینان نہیں۔ عدل و امانت، صبر و قناعت، عفت و حیا، صدق و صفا، اخلاص و محبت، شرافت و مروت، لحاظ و پاسداری، سیرچشمی و خودداری جیسی اعلیٰ اقدار جن سے انسانیت عبارت تھی ایک ایک کر کے رخصت ہو گئی ہیں۔ اور انسان اندر سے بالکل بے مایہ اور کھوکھلا ہو کر رہ گیا ہے۔

آج اس دنیا میں ہر شخص سکون کا متلاشی ہے۔ سکون یعنی پیس آف مائنڈ کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے دل و دماغ مکمل طور پر مطمئن ہوں۔ حالت یقین میں ہوں۔ مادیت پرستی کے موجودہ دور میں تو یہ مسئلہ اور بھی زیادہ شدید ہو گیا ہے اور دنیا میں موجود انسانوں کی اکثریت اس وقت کسی نہ کسی شکل میں ذہنی پریشانی یا ڈپریشن کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی دنیا میں بعض ممالک ایسے ہیں جہاں فی کس آمدن دنیا میں سب سے زیادہ ہے مگر حیرت انگیز طور پر انہی ممالک میں سالانہ خودکشی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔

اب ایک ہی بیڈ پر برابر میں لیٹے ہوئے ساتھی اپنے اپنے موبائل فون میں مگن مگر ذہنی اور روحانی طور دور ہیں اور ہزاروں میل دور بیٹھے لوگ سوشل میڈیا کی وجہ سے زیادہ قریب محسوس ہوتے ہیں۔ سو دنیا ترقی کی وجہ سے گلوبل ویلیج تو بن گئی مگر قریب والے دور اور دور والے قریب ہو گئے۔

لوگ ذہنی سکون ڈھونڈنے کے لئے مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں۔ بعض لوگ دولت و ثروت کو زیادہ سے زیادہ اکٹھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور مقصد یہی ہوتا ہے کہ وہ دولت میں سکون حاصل کریں۔ بعض لوگ سیر و تفریح میں سکون تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے لئے وہ نہ جانے کن کن ملکوں کی خاک چھانتے پھرتے ہیں مگر سکون پھر بھی نہیں آتا جبکہ بہت سارے بدنصیب تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو موسیقی، شراب، جوا، نیند آور گولیوں اور حتیٰ کہ غلط کاریوں میں بھی سکون تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور شاید وقتی طور پر یہ لوگ وجد میں آ کر کچھ عارضی سکون بھی حاصل کر لیتے ہوں مگر جب اس عارضی تفریح کا اثر ختم ہوتا ہے تو یہ پہلے سے زیادہ غمگین، مایوس، اداس اور بے چین ہو جاتے ہیں۔

یاد رکھیے، سکون اگر دولت میں، محلوں اور بڑے بڑے مکانوں میں ہوتا تو دنیا کا سب سے بڑا گلوکار اپنے گھر میں دل کے ڈاکٹر کو اپنی ہی گھر میں تنخواہ پہ رکھ کر روزانہ نیند کے انجکشن دینے پر مجبور نہیں کرتا جو بالآخر اس کی موت کا سبب بنا۔

سکون ختم ہونے کا ایک بڑا سبب دل کا سخت ہو جانا بھی ہے۔ یہ دل کا سخت ہو جانا کوئی میڈیکل کنڈیشن نہیں بلکہ یہ ایک روحانی کیفیت کی بات ہے ۔ جانتے ہیں کہ دل سخت کیوں ہو جاتے ہیں؟ موت پر سے یقین ختم ہو جانے کی وجہ سے۔ ہمارا موت پر عقیدہ تو ہوتا ہے لیکن یقین نہیں ہوتا۔ بلکہ موت نہ آنے پر یقین ہوتا ہے۔ یہ یقین کہ میں ابھی اس کمرے سے اٹھ کر زندہ باہر جاؤں گا، یہ یقین دل کو سخت کر دیتا ہے۔

اسی طرح خواہشات، کبھی نہ ختم ہونے والی خواہشات، دنیا کی امنگیں، طویل امیدیں بھی انسان کے دل کو پتھر بنا دیتی ہیں۔

اب ہمارے پاس برانڈز تو ہیں، ستر پوشی نہیں۔ ڈگریاں تو ہیں مگر علم نہیں۔ علاج تو ہے مگر صحت نہیں۔ بستر تو ہے پر نیند نہیں۔ صفائی تو ہے لیکن پاکیزگی نہیں۔ آرام تو ہے مگر سکون نہیں۔ ہم اپنے ذہن کو گولی دے کر نیند تو لے آتے ہیں مگر سکون نہیں لا پاتے۔ اگرحقیقتاً ہمیں سچے سکون کی طلب ہے اور ہم روح کی آسودگی اور قلب کے چین کے متلاشی ہیں تو ہمیں ان اسباب و عوامل کا کھوج لگانا ہو گا جن کی وجہ سے ہماری زندگیوں میں سکون کی جگہ بے چینی نے لے لی ہے۔ ہم نے سب کچھ پا لیا۔ اگر کچھ کھو دیا تو وہ ہے انسانیت، روحانیت اور سادگی۔

مگر مسلسل محرومیوں اور تجربات کی پیہم ناکامیوں سے مایوس ہو کر ہمت ہارنے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں ابھی ایک تجربہ اور کرنا چاہیے۔ حاضر کے ان پرفریب و پرشور نعروں کے درمیان حق و صداقت کی ایک مدھم سی آواز بھی سنائی دے رہی ہے۔ آئیے کان لگا کر سنیں، ممکن ہے روح کو تسکین اور قلب کے آرام کا سامان یہیں سے فراہم ہو جائے، غور سے سنیے کہ کہیں سے آواز آ رہی ہے۔

اے بھٹکنے والے انسانو! دنیا کے ان گورکھ دھندوں میں پھنس کر اپنے آپ کو ضائع مت کرو ، اگر تمہیں سکون قلب کی تلاش ہے تو آؤ میرے پاس آؤ، تمہارے گوہر مقصود کا پتہ میں اور صرف میں ہی بتا سکتا ہوں کیونکہ اس بیش بہا امانت کا امین و محافظ میں ہی ہوں ہاں تمہاری روح میری امانت ہے، کان کھول کر غور سے سن لو ”الا بذکر اللہ تطمئن القلوب“ میری ہی یاد سے قلوب چین پائیں گے۔ یعنی دولت و حکومت، منصب و جاگیر، ظاہری عروج و ترقی، اسباب راحت کی فراوانی ان میں سے کوئی چیز بھی انسان کو حقیقی سکون و اطمینان سے ہم آغوش نہیں کرسکتی۔ صرف یاد الٰہی اور ذکر خالق کا نور ہی مخلوق کے دلوں سے ہرطرح کی وحشت، گھبراہٹ اور اضطراب وانتشار کو دور کر سکتا ہے۔

سکون کیا ہے، کس چیز میں ہے؟
سکون قناعت میں ہے، حرص میں نہیں۔
سکون کافی میں ہے، ناکافی میں نہیں
سکون چیریٹی میں ہے، دوسروں کی مدد میں ہے۔ کنجوسی میں نہیں۔
سکون میانہ روی میں ہے، اسراف میں نہیں۔
سکون آپ کے اسمارٹ ہونے میں ہے، آپ کے فون کے اسمارٹ ہونے میں نہیں۔
سکون گھر میں ہے، مکان میں نہیں۔
سکون صلہ رحمی میں ہے، قطع رحمی میں نہیں۔
سکون روحانیت میں ہے، مادیت میں نہیں
سکون دوسروں کے لئے جینے میں ہے، فقط اپنے لئے زندہ رہنے میں نہیں۔
سکون ضرورت پوری کرنے میں ہے، آسائش حاصل کرنے میں نہیں۔
سکون صبر میں ہے، بے تابی میں نہیں۔

سکون تبدیلی کو قبول کرنے میں ہے، جامد اور ساکت ہو کر ناقابل تبدیل ہو کر جینے میں نہیں۔ اسی لئے تو شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

سکوں محال ہے قدرت کے کار خانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں