ٹائیفائیڈ: غذا کا علاج میں کردار
ڈاکٹر سید اکرام
اب ہم بات کریں گے ٹائی فائیڈ کے علاج میں ڈائٹ یعنی غذا کے کردار کے حوالے سے۔ لیکن اس سے پہلے ٹائیفائیڈ ہی کے حوالے سے ایک ایسا موضوع جس نے پوری دنیا میں پاکستان کو ہائی لائٹ کیا۔ جی ہاں ہم بات کر رہے ہیں مزاحمتی ٹائی فائیڈ کی۔
سوایکس ڈی آر اور ایم ڈی آر ٹائی فائیڈ کیا ہوتے ہیں اور ان میں کیا فرق ہے؟
اصل یہ دونوں مزاحمتی ٹائی فائیڈ کی ہی اقسام ہیں۔ جنھیں ایکس ڈی آر یعنی ایکس ٹینسو ڈرگ ریزسٹینس ٹائی فائیڈ یا ایم ڈی آر یعنی ملٹی ڈرگ ریزسٹینس ٹائی فائیڈ بھی کہا جاتا ہے۔ یعنی ایسا ٹائی فائیڈ جن پر عام ٹائی فائیڈ میں دی جانے والی اینٹی بایوٹکس اثر نہ کریں۔ پاکستانی اور غیرملکی ماہرین کی تازہ تحقیق کے مطابق پاکستان میں ملنے والی ٹائیفائیڈ کی ایک ایسی ہی نئی قسم کے جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ اس پر مدافعتی ادویات کا اثر نہیں ہو رہا ہے اور ماہرین اس پر قابو پانے کے لیے نئی حکمت عملی کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ برطانیہ کی کیمبرج یونیوسٹی کے طبی ماہرین کی تحقیق کے مطابق اس نئی قسم پر بہت کم اینٹی بائیوٹکس اثر کرتی ہیں اور یہ دوبارہ خودبخود جنم لے لیتا ہے۔
یہ ٹائیفائیڈ نومبر دو ہزار سولہ کو پاکستان میں حیدر آباد میں پہلی مرتبہ رپورٹ ہوا تھا اور اب ملک کے کئی مقامات اور برطانیہ تک بھی پھیل چکا ہے۔ اور اس میں تین سے پانچ سال کی عمر کے بچے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
یہ ہوتا کیوں ہے؟ کیونکہ ہمارے ملک میں ہر بخار کا حل اینٹی بائیؤ ٹکس کو سمجھ لیا گیا ہے۔ سو وقت بے وقت سیلف میڈیکیشن یا میڈیکل اسٹور والے سے کہہ کر، ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر اینٹی بائیوٹک لے لینا یا پھر ڈاکٹر کے تجویز کردہ نسخے کے مطابق اینٹی بایؤٹک کا کورس پورا نہ کرنا۔ ان سب چیزوں سے ہمارے جسم میں ٹائیفائیڈ یا دوسرے انفیکشنز کے جرثومے مکمل طور ختم نہیں ہو پاتے اور جسم میں رہ کر ہی اپنے آپ کو اینٹی بائیؤٹک کے خلاف ڈھال لیتے ہیں، بدل لیتے ہیں، جینیاتی طور پر اپنے یا ڈی این اے میں تبدیلی لے آتے ہیں اور اس تبدیلی کے نتیجے میں وہ خود کو اینٹی بایوٹکس سے محفوظ کرلیتے ہیں اور ان پر یہ دوائیں اثر نہیں کرتی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹائیفائیڈ سے بچاؤ کے لئے کیا احتیاطی تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں۔ ؟
یہ ہوتا کیوں ہے؟ کیونکہ ہمارے ملک میں ہر بخار کا حل اینٹی بائیؤ ٹکس کو سمجھ لیا گیا ہے۔ سو وقت بے وقت سیلف میڈیکیشن یا میڈیکل اسٹور والے سے کہہ کر، ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر اینٹی بائیوٹک لے لینا یا پھر ڈاکٹر کے تجویز کردہ نسخے کے مطابق اینٹی بایؤٹک کا کورس پورا نہ کرنا۔ ان سب چیزوں سے ہمارے جسم میں ٹائیفائیڈ یا دوسرے انفیکشنز کے جرثومے مکمل طور ختم نہیں ہو پاتے اور جسم میں رہ کر ہی اپنے آپ کو اینٹی بائیؤٹک کے خلاف ڈھال لیتے ہیں، بدل لیتے ہیں، جینیاتی طور پر اپنے یا ڈی این اے میں تبدیلی لے آتے ہیں اور اس تبدیلی کے نتیجے میں وہ خود کو اینٹی بایوٹکس سے محفوظ کرلیتے ہیں اور ان پر یہ دوائیں اثر نہیں کرتی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹائیفائیڈ سے بچاؤ کے لئے کیا احتیاطی تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں۔ ؟
احتیاط علاج سے بہتر ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ٹائیفائیڈ کے پھیلنے کا سب سے بڑا سبب آلودہ یعنی جراثیم زدہ پانی ہے۔ سو ٹائیفائیڈ سے بچاؤ کے لئے پانی ابال کر استعمال کریں۔ بازار میں کھلے عام فروخت ہونے والی اشیاء استعمال نہ کریں۔ صفائی ستھرائی کا نظام بہتر بنایا جائے، واش روم استعمال کرنے کے بعد صابن سے ہاتھ دھوئیں۔ کھانا بنانے اور کھانے سے قبل صابن سے ہاتھ دھوئیں۔ کھانے سے قبل سبزیوں اور پھلوں کو اچھی طرح دھویا جائے۔ غیرمعیاری منرل واٹر کی بوتلوں والا پانی استعمال نہ کیا کریں، صفائی ستھرائی رکھیں، کھلے پکوان اور آلودہ مشروبات کا استعمال نہ کریں۔ اور ہاں بچاؤ کے لئے بچوں کو بروقت ویکسین لگوائیں۔
کیا ٹائی فائیڈ کی ویکسین موجود ہے اور وہ کتنی پر اثر ہے، کتنی کامیاب ہے؟
خوش قسمتی سے ویکسین بالکل موجود ہے۔ مگر یہ سو فیصد تک تحفظ فراہم نہیں کرتی بلکہ پچپن فیصد تک بچاؤ کر سکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر سو افراد جو ٹائیفائیڈ ویکسین لیں گے، ان میں یہ ویکسین تقریباً آدھے لوگوں میں ہی ٹائی فائیڈ سے مکمل تحفظ فراہم کرے گی۔ ٹائی فائیڈ سے بچاؤ کی ویکسین دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک تو کیپسول کی شکل میں اور دوسرا انجیکشن کی شکل میں۔ کیپسول والی ویکسین جو آپ منہ کے ذریعے لیتے ہیں، چار سال تک پر اثر رہتی ہے۔ جبکہ انجیکشن کے ذریعے دی جانے والی ویکسین دو سال تک ٹائی فائیڈ کے خلاف تحفظ فراہم کرتی ہے۔
اور اب بات ہو جائے کہ وہ کون سی غذا ہے، خوراک ہے۔ ڈائٹ ہے، کھانے ہیں، اناج ہے، جو آپ کو ٹائی فائیڈ کے دوران لینی چاہیے۔ تا کہ نا صرف ٹائی فائیڈ بخار جلدی ٹھیک ہو بلکہ آپ کی قوت مدافعت اتنی طاقتور ہو جائے کہ آپ دوسری بیماریوں اور انفیکشنز سے بھی محفوظ رہ سکیں۔
سب سے پہلی بات تو یہ کہ آپ کو ٹائی فائیڈ کے دوران ہائی کیلوری فوڈ لینی ہے۔ یعنی طاقتور غذا۔ لیکن اس بات کا خیال رہے کہ چونکہ ٹائی فائیڈ میں آپ کا معدہ اور آپ کی آنتیں بھی متاثر ہوتی ہیں سو بھاری اور ثقیل غذا سے پرہیز کرنا ہوتا ہے۔ یعنی بڑے کا گوشت، بہت زیادہ مرچوں والی یا بہت زیادہ چکنائی والی یا بہت زیادہ تیل یا گھی میں پکی ہوئی اشیا سے بھی پرہیز کرنا ہے۔
اگر آپ کو کھانسی ہے تو ٹھنڈی اور کھٹی چیزوں سے بھی پرہیز کریں کیونکہ یہ چیزیں ورم بڑھا سکتی ہیں سو آپ کی کھانسی میں اور گلے کی خراش میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
ٹائیفائڈ کے مریضوں کو چاہیے کہ اگر وہ جلدی اس بخار سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو باہر کے کھانوں سے پرہیز کریں، اس کے علاوہ مصالحے دار کھانوں اور زیادہ تیل والے کھانوں سے بھی گریز کریں۔
ٹائیفائڈ کے مریضوں کو چاہیے کہ گھر کا سادہ کھانا کھائیں، کوشش کریں کہ سبزیوں کا استعمال زیادہ کریں اور کھانا کم تیل میں اور کم مرچوں میں پکائیں۔
زیادہ پانی کا استعمال بھی ضروری ہے۔ ٹائیفائڈ کے مریضوں میں پانی کی کمی ہوجاتی ہے لیکن پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ صرف پانی کے ذریعے ہی اس کمی کو پورا کریں بلکہ ان کو چاہیے کہ روزانہ لیموں پانی، ناریل پانی، لسی اور دیگر ایسے مشروبات کا استعمال کریں جس سے جلد از جلد پانی کی کمی پوری ہو جائے، اس سے مریض بہتر محسوس کرے گا اور بخار کی شدت میں بھی کمی آئے گی۔
ٹائیفائڈ کی وجہ سے مریض کے جوڑوں میں بہت درد ہوتا ہے اور وہ خود کو بہت کمزور محسوس کرتا ہے، ٹائیفائڈ کے مریضوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی غذا میں پروٹین کا استعمال کریں۔ یعنی ٹائیفائڈ کے مریض روزانہ ایسی خوراک لیں جس میں زیادہ سے زیادہ پروٹین شامل ہو، ٹائیفائڈ میں جو پروٹین والی غذائیں لی جا سکتی ہیں، ان میں دہی، دالیں، دودھ، میوے اور مچھلی شامل ہیں جبکہ گوشت اور چکن کھانے سے گریز کیا جائے کیونکہ ان میں پروٹین تو شامل ہوتا ہے لیکن یہ ٹائیفائڈ کے مریض ہضم نہیں کر سکتے ہیں۔ تا ہم چکن سوپ، اور یخنی لی جا سکتی ہے۔ اسی طرح دودھ، انڈے اور دہی بھی لیا جا سکتا ہے۔
اسی کے ساتھ ساتھ زیادہ ریشے دار غذا جسے ہائی فائبر فوڈ بھی کہا جاتا ہے۔ وہ بھی آپ کو لینی چاہیے۔ جیسے بران بریڈ، چکی کا آٹا، کچی سبزیاں اور پھل۔ تاہم ایسی سبزیوں سے پرہیز کریں جن سے گیس پیدا ہو سکتی ہے جیسے گوبھی کرم کلہ، شلجم اور بروکولی وغیرہ۔
پانی کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں۔ تا ہم یہ ٹھنڈی حالت میں نا ہو۔ بلکہ کمرے کے درجہ حرارت پر ہو۔ اسی طرح اگر آپ کو شوگر کا عارضہ نہ ہو تو آپ پھلوں کے جوس بھی لے سکتے ہیں۔ لیکن یہ بازار والے جوس نہ ہوں بلکہ کوشش کریں کہ گھر پر خود ہی پھلوں کا عرق نکال کر استعمال کریں۔
سو انشا اللہ ان احتیاطی تدابیر کے ساتھ، پرہیز کے ساتھ، اچھی غذا کے ساتھ، اچھی دوا کے ساتھ اور سب سے بڑھ کر دعا کے ساتھ۔ شفا ضرور ہوگی۔ وہ شاعر کیا خوب کہا ہے کہ:
مریض عشق ہے تو، دوائے دل سمجھ دل بر کو
پھر مرض جانے، دوا جانے، شفا جانے، خدا جانے