ٹائیفائیڈ یعنی میعادی بخار: وہ سب جو ہم سب جاننا چاہیں
ڈاکٹر سید اکرام
بقول شاعر
ہلکا ہلکا بخار لگتا ہے
اور ”تو“ ذمہ دار لگتا ہے
یوں تو بخار کئی طرح کے ہوتے ہیں مثلا عشق کا بخار، کورونا کا بخار، ڈینگی کا بخار۔ وغیرہ وغیرہ، لیکن کچھ بخار ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو دور کرنے کے لئے لاکھ جتن کر بھی لیے جائیں، تب بھی وہ اپنی مدت مکمل کر کے، اپنی میعاد پوری کر کے ہی اترتے ہیں۔ جی ہاں، ہم بات کر رہے ہیں میعادی بخار یعنی ٹائی فائیڈ کی جو دنیا کے سب سے زیادہ عام انفیکشنز (متعدی بیماریوں) میں سے ایک کہا جاتا ہے اور شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جہاں کوئی بھی فرد زندگی میں کبھی نہ کبھی اس بخار سے متاثر نہ ہوا ہو۔
عالمی سطح پر سالانہ ٹائیفائیڈ بخار کے اکیس ملین اور اموات کے دو لاکھ دو ہزار کیس رپورٹ ہوتے ہیں اور پاکستان میں سن دو ہزار سترہ میں ٹائیفائیڈ کے باعث ہونے والی مجموعی ہلاکتوں میں سے ستر فیصد ہلاکتیں پندرہ سال سے کم عمر بچوں کی تھی اور اس بیماری سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ سندھ تھا جہاں ٹائیفائیڈ کے تریسٹھ فیصد کیس رپورٹ ہوئے۔ پوری دنیا میں کہیں اور ٹائیفائیڈ کے اتنے زیادہ کیس اتنے مختصر عرصے میں دیکھنے میں نہیں آئے۔
یوں تو ٹائیفائید مکمل طور پر قابل علاج ہے مگر دو ہزار سولہ میں پاکستان میں ٹائی فائیڈ کی ایک ایسی قسم کے بارے میں انکشاف ہوا جو بہت خطرناک ہے اور ٹائی فائیڈ کے خلاف استعمال ہونے والی عام دوائیں اس پر بالکل بھی اثر نہیں کرتیں۔ اور اس قسم کے ٹائی فائیڈ کو کہا جاتا ہے ایکس ڈی آر ٹائی فائیڈ۔ یا ایکسٹرا ڈرگ ریسسٹنٹ ٹائیفائیڈ۔ اردو میں ہم اسے مزاحمتی ٹائی فائیڈ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اور یہ ایک ایسے جرثومے یا بیکٹیریا کی وجہ سے ہوتا ہے جس نے اپنے آپ کو جینیاتی طور پر بدل لیا ہے اور عام اینٹی بائیو ٹیکس کے مقابلے میں اتنا طاقتور بنا لیا ہے کہ اب عام دوائیں اسے ختم نہیں کر پاتیں اور صرف دو طرح کی دوائیں ہی اس کے خلاف اثر رکھتی ہیں۔
اس پر مزید بات کرنے سے پہلے ہمیں سمجھنا ہو گا کہ ٹائی فائیڈ یا میعادی بخار کہتے کسے ہیں۔
ٹائی فائیڈ ایک بیکٹیریل انفیکشن ہے جس میں تیز بخار ہوجاتا ہے۔ اس بخار کا سبب جراثیم ”سیلمونیلا ٹائی فی“ ہے۔ یہ ایک متعدی مرض ہے جو ایک مریض سے صحت مند شخص کو پھیل سکتا ہے۔
ٹائی فائیڈ کیسے پھیلتا ہے؟
ٹائیفائیڈ کا بیکٹریا منہ کے راستے انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے۔ آلودہ پانی، فروزن فروٹس اور ناقص خوراک اس کے پھیلاؤ کا سبب ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون سے لوگ اس کے زیادہ رسک پر ہوتے ہیں یا کون سی وہ چیزیں ہیں جو ٹائیفائیڈ پھیلنے کا رسک زیادہ کر دیتی ہیں؟
گرم ممالک، برسات اور تیز گرم موسم میں ٹائیفائیڈ کا پھیلاؤ زیادہ ہوتا ہے۔
اسکول جانے والے بچے ٹائیفائیڈ کا آسان ترین ہدف ہو سکتے ہیں۔
نوجوان اور پندرہ سال سے کم عمر کے بچے اس کے زیادہ رسک پر ہوتے ہیں کیونکہ ان کی قوت مدافعت کم ہوتی ہے۔
ٹائیفائیڈ ایسے علاقوں میں بہت تیزی سے پھیلتا ہے جہاں آبادی بہت زیادہ ہو مگر نکاسی آب کا نظام بہتر نہ ہو کیونکہ ٹائیفائیڈ کی وجہ آلودہ پانی قرار دیا گیا ہے۔ ہوتا کیا ہے کہ ٹائیفائیڈ کا بیکٹیریا مریض کے فضلے یعنی اسٹول میں نکلتا ہے جو پانی میں شامل ہوجاتا ہے۔ اگر یہ پانی استعمال ہو یا اسے دیگر اشیا میں استعمال کیا جائے تو یہ بیکٹیریا انسان میں منتقل ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر رفع حاجت کے بعد اگر ہاتھ صابن سے اچھی طرح نہ دھوئے جائیں تو بات ٹائیفائیڈ کا رسک زیادہ کر دیتی ہے۔
نیز کچے دودھ، گندے پانی سے کاشت کی گئی سبزیاں، مریض کے برتن، کپڑے وغیرہ سے مرض منتقل ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ مرض ایسے کنوؤں اور تالابوں سے بھی پھیلتا ہے جس میں کسی مریض کے فضلات شامل ہوں، یا اگر پینے کے پانی میں سیوریج کا پانی مل جائے۔ اسی طرح مضر صحت کھانوں اور گندے پانی سے بھی اس مرض کے جراثیم انسان کے منھ کے ذریعے آنتوں میں چلے جاتے ہیں، جس کے باعث ہاضمہ خراب ہو سکتا ہے اور بخار ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں موسم گرما میں برف بہت زیادہ استعمال کی جاتی ہے جب کہ برف کے کارخانوں میں حفاظتی اقدامات نہیں ہوتے۔ تو یہ بھی ٹائیفائیڈ کے پھیلاؤ کی وجہ بنتے ہیں۔
اب بات کرتے ہیں ٹائیفائیڈ کی علامات کی۔
ٹائیفائیڈ کا مرکز ”آنتیں“ ہیں۔ یہیں اس جراثیم کے برے اثرات خون میں شامل ہوتے ہیں۔ اس بخار کے جراثیم چھوٹی آنتوں کے غدود میں ورم اور زخم پیدا کرتے ہیں۔ یہ جراثیم جگر، تلی، پتہ، دماغ کی جھلیوں اور ہڈی کے گودے میں بھی سرایت کر جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ اس میں سینے، پشت، اور پیٹ پر چھوٹے چھوٹے گول دانے بھی نکل سکتے ہیں جو آپس میں مل کر گلابی دھبے نما بن جاتے ہیں،
اس کے علاوہ اس کی سب سے اہم علامت ہے تیز بخار۔ جو ایک سو ایک ڈگری سے اوپر ہوتا ہے اور روزانہ بتدریج بڑھتا ہے اور دوا کھائے بغیر نہیں اترتا۔
ٹائیفائیڈ کی دوسری علامات میں شامل ہیں پیٹ اور سر میں درد، قبض یا ڈائیریا، بھوک کی کمی۔
زبان کا خشک ہونا۔ اس کے ساتھ زبان کے دونوں طرف سفید تہہ بھی جم سکتی ہے۔
اگر ٹائیفائیڈ انفیکشن کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو یہی علامات مہلک پیچیدگیوں میں بھی بدل سکتی ہیں جیسے یہی ٹائیفائیڈ بخار آنتوں کے خون اور پرفوریشن کا سبب بن سکتا ہے۔ جس کے نتیجے میں یہ پیٹ میں شدید درد، متلی، قے، او (سیپسس) پیدا کر سکتا ہے یعنی خون کے ذریعے پورے جسم میں کھیل سکتا ہے۔
جراثیم کے داخل ہونے کے بعد عام طور پر آٹھ سے پندرہ دن کے بعد یہ مرض ظاہر ہوتا ہے۔
قومی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ ٹائیفائیڈ بخار کا دورانیہ چھ تا چودہ روز تک جاری رہتا ہے۔
اب بات ہو جائے ٹائیفائیڈ کی تشخیص اور علاج کی۔
دیکھیے بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں تشخیص سے قبل ہی، یعنی مرض کنفرم ہونے سے پہلے ہی اندھے علاج یعنی اندازے کی بنیاد پر علاج کا رجحان بہت عام ہو گیا ہے۔ اس میں کسی حد تک تو ہم ڈاکٹر خود بھی ذمہ دار ہیں لیکن کئی دفعہ مریض خود معالج پر زور ڈالتے ہیں کہ مرض کو جلدی ٹھیک کرنے کے لئے ٹیسٹ سے پہلے ہی علاج شروع کر دیا جائے۔ علاج بالکل شروع ہونا چاہیے لیکن اینٹی بایؤٹک کا استعمال صرف تشخیص ہونے کے بعد ہی شروع ہونا چاہیے۔
ٹائیفائیڈ کی تشخیص مختلف ٹیسٹوں سے کی جاتی ہے جن میں وڈال اور ٹائی فی و ڈاٹ ٹیسٹ قابل اعتبار نہیں کیونکہ ان دو طریقوں سے کیے گئے ٹیسٹ میں بیماری ہونے کے دو تین سال بعد بھی ٹیسٹ کے نتائج مثبت آتے ہیں۔
ٹائیفائیڈ کی تشخیص کے لیے سب سے بہترین طریقہ بلڈ کلچر ٹیسٹ کا ہے اس کا نتیجہ ایک ہفتے بعد آتا ہے۔ لیکن سب سے زیادہ قابل اعتبار ہوتا ہے۔
جہاں تک علاج کا تعلق ہے تو خوش قسمتی سے ٹائیفائیڈ مکمل طور پر قابل علاج ہے۔ اس کے لئے بہت پر اثر اینٹی بایؤٹکس موجود ہیں جو اس مرض کو مکمل طور پر جڑ سے اکھاڑ سکتی ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ اینٹی بایؤٹکس کا مکمل کورس کرنا ضروری ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ڈاکٹر آپ کو دس دن کا کورس بتائے اور آپ تین دن بعد بخار اترنے کے بعد ہی دوا لینا چھوڑ دیں کیونکہ ایسا ہونے کی صورت میں ٹائیفائیڈ مستقبل میں کبھی بھی دوبارہ واپس آ سکتا ہے اور زیادہ خطرناک صورت میں واپس آ سکتا ہے جسے ایکس ڈی آر ٹائی فائیڈ یا مزاحمتی ٹائی فائیڈ بھی کہتے ہیں۔
اگلے آرٹیکل میں ہم بات کریں گے ٹائی فائیڈ کے علاج میں ڈائٹ یعنی غذا کے کردار کے حوالے سے۔ پڑھنا مت بھولیے گا۔