السر: تشخیص سے علاج تک
ڈاکٹر سید اکرام
کیا کرے میری مسیحائی بھی کرنے والا
زخم ہی یہ مجھے لگتا نہیں بھرنے والا
کہتے ہیں وقت سب سے بڑا مرہم ہے اور بڑے بڑے زخم بھر دیتا ہے۔ لیکن کچھ زخم ایسے بھی ہوتے ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ مزید گہرے اور تکلیف دہ ہو جاتے ہیں۔ خاص طور پر ایسے زخم جو بدن کے اندر ہوں، کسی کو دکھائے بھی نہ جا سکتے ہوں، صرف محسوس ہی کیے جا سکتے ہوں۔ معدے یا چھوٹی آنت میں پڑنے والا زخم بھی ایک ایسا ہی زخم ہوتا ہے جسے عرف عام میں السر کہتے ہیں۔
السر ہوتا کیا ہے؟
السر جسم کے کسی عضو میں زخم پڑ جانے کو کہتے ہیں اور معدے میں زخم ہونے کی صورت میں ا سے پیپٹک السر کا نام دیا جاتا ہے۔
معدے کا السر کیوں ہوتا ہے؟
معدے سے گیسٹرک جوس خارج ہوتا ہے جس میں تیزاب اور پیپسن ہوتے ہیں۔ یہ خوراک کے ہضم ہونے میں مدد دیتے ہیں۔ بعض اوقات کچھ وجوہات کی بناء پر تیزاب یعنی ایچ سی ایل اور پیپسین زیادہ مقدار میں خارج ہوتے ہیں اور خوراک کو ہضم کرنے کی بجائے معدے کو ہضم کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس طرح ایچ سی ایل ایسڈ اور پیپسین معدے کے اوپر والی تہہ یا حفاظتی غلاف کو ختم کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے تیزابیت ہو جاتی ہے۔ فضلے میں خون آ سکتا ہے اور معدے میں شدید درد محسوس ہوتا ہے۔
السر کی بڑی وجہ ایک جراثیم ہے جسے ایچ پایئلوری کہتے ہیں۔ یہ معدے میں موجود بیکٹیریا ہوتا ہے جو پچاس فیصد لوگوں میں موجود ہوتا ہے اور تیزاب کے ساتھ مل کر غلاف کو کمزور کرتا ہے۔
کون سی عادات السر کا رسک بڑھاتی ہیں؟
تین چیزیں یاد رکھیں۔ جلدی (یعنی ہری) ، پریشانی (یعنی وری) اور چٹ پٹے کھانے (یعنی کری) السر کا سبب بنتے ہیں۔
اصل میں کھانے میں بے اعتدالی، بے ہنگم طریقے سے کھانا، مرغن غذاؤں کی بہتات، زبان کے چٹخارے کی خاطر ہر قسم کی اشیاء پر منہ مارتے رہنا اس کا رسک بڑھاتا ہے۔
اس کے علاوہ مادیت کے اس دور میں انسان زبردست ذہنی تناؤ، پریشانی و فکر میں مبتلا ہے سو ذہنی تناؤ، پریشانی و فکر، الجھن اور ڈپریشن معدے کے السر کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔ معدے کا السر ان لوگوں میں بھی زیادہ ہوتا ہے جن کے والدین میں یہ بیماری پائی جائے۔ یہ پرانا ہونے کے ساتھ بڑھتا چلا جاتا ہے۔
کیا آپ السر کی علامات سے واقف ہیں؟
سب سے پہلی، عام اور اہم ترین علامت ہے پیٹ میں درد۔ اس درد کی تین بڑی خصوصیات ہیں۔ درد کی جگہ، کھانے کے ساتھ تعلق اور درد کا وقفے وقفے سے ہونا۔
معدے کے السر کا درد ناف کے عین اوپر سینے سے نیچے ہوتا ہے۔ مریض انگلی کے اشارے سے بتاتا ہے کہ میرے اس جگہ درد ہو رہا ہے اور عموماً یہاں دبانے سے درد میں اضافہ ہوتا ہے۔ عموماً یہ کھانے کے آدھ گھنٹہ بعد ہوتا ہے لیکن کھانے سے اس کی شدت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر السر چھوٹی آنت میں ہو تو مریض اکثر رات کو درد کی وجہ سے اٹھ جاتا ہے اور کچھ کھا لینے سے درد کم ہو جاتا ہے۔ اس لیے اس درد کو ”بھوکا درد“ بھی کہا جاتا ہے۔
اس درد کی تیسری خصوصیت وقفوں میں ہونا ہے۔ عموماً یہ دنوں بلکہ ہفتوں چلتا ہے اور ایک خاص وقت میں ہوتا ہے۔ کچھ وقت گزار کے یہ ختم ہو جاتا ہے، مگر ایک خاص مدت کے بعد پھر رونما ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ علامات میں متلی اور قے، بھوک کم لگنا اور وزن میں بتدریج کمی شامل ہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ السر کا علاج جتنا جلدی ممکن ہو کروا لینا چاہیے، علاج نہ کروانے کی صورت میں منہ سے خون آنا اور درد شروع ہو سکتا ہے اور یہ خونی السر زندگی کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو مریض کو قے میں خون آنا شروع ہو جاتا ہے اور آپ کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا آ جا تا ہے۔
اگر آپ کو اکثر سینے میں جلن کی شکایت رہتی ہے چاہے غذا کچھ بھی ہو تو السر اس کا سبب ہو سکتا ہے۔ السر کے بیشتر مریضوں کو سینے میں شدید درد کی شکایت رہتی ہے جس کے باعث کھانے کے بعد ہچکیاں آنے لگتی ہیں۔ اسی طرح السر کے بیشتر مریضوں کے اندر کھانے کی خواہش کم ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں غذا کی مقدار کے استعمال میں کمی آتی ہے جبکہ الٹیاں زیادہ آنے لگتی ہیں اور وزن میں غیر متوقع کمی ہوجاتی ہے۔
اگر آپ کو محسوس ہو کہ پیٹ ضرورت سے پھول گیا ہے تو یہ السر کی ابتدائی علامات میں سے ایک ہے خصوصاً ایسے افراد میں جنہیں پیٹ کے درمیانی حصے میں شکایت کی تکلیف بھی ہو۔ ویسے تو السر کو معدے اور چھوٹی آنت سے منسلک کیا جاتا ہے مگر اس کا درد سفر کر کے کمر تک بھی جاسکتا ہے، اگر السر آنتوں کی دیوار تک پھیل جائے تو اس کا درد زیادہ شدید ہو جاتا ہے، دورانیہ بڑھ جاتا ہے اور اس میں کمی مشکل سے آتی ہے۔
السر کی تشخیص کیسے ہوتی ہے؟
اس سلسلے میں ایچ پائیلوری ٹیسٹ سب سے اہم ہے۔ جو سانس، خون یا فضلہ سے کیا جاتا ہے۔ اس کی مزید تصدیق کے لئے ڈاکٹر اینڈو اسکوپی بھی تجویز کر سکتے ہیں جس میں آپ کے پیٹ میں غذائی نالی کے ذریعے ایک چھوٹا سا کیمرہ ڈال کر اندر معدے اور دوسرے غذائی اعضا کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
السر کا علاج کیسے ہوتا ہے؟
اس حوالے سے ڈاکٹر آپ کو اینٹی بائیوٹک ادویات تجویز کریں گے جو السر کے بیکٹیریا ختم کر دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ معدے کی تیزابیت کو ختم یا کم کرنے کے لئے بھی دوائیں الگ سے دی جاتی ہیں۔
لیکن اگر اس علاج سے السر معدہ ٹھیک نہ ہو تو پھر سرجری کے علاوہ اور کوئی طریقہ علاج باقی نہیں رہتا کیونکہ السر کسی وقت بھی پھٹ کر جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ مختلف قسم کے آپریشن السر کے لیے کیے جا سکتے ہیں اور آپریشن کر کے السر سے متاثرہ حصہ نکال دیا جاتا ہے۔ لیکن ایسا بہت کم کیسز میں ہوتا ہے اور سرجری کی ضرورت نہیں پڑتی۔
السر کا رسک گھر بیٹھے کیسے کم کیا جائے؟
احتیاط علاج سے بہتر ہے، السر کی بیماری اس مقولے کا بہترین مصداق ہے۔ بس اپنے حال کو بہتر بنانے کی فکر کریں۔ مستقبل خود بخود ٹھیک ہو جائے گا، جو کام بھی کریں سکون سے کریں۔ ہری جلدی میں کیے گئے اکثر کاموں میں وری یعنی پریشانی ہوتی ہے۔ ذہنی طور پر ریلیکس رہیں۔ محنت کر کے نتیجہ اللہ پہ چھوڑ دیں۔ وری اور ہری کو زندگی سے نکال کر آپ السر کی دو بڑی وجوہات سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔ خوش رہیں۔ دوسروں کو خوش رکھیں اور ان کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔
سادہ طرز زندگی اپنائیں۔ سادہ اور متوازن غذا کھائیں۔ بھوک رکھ کر کھانا کھائیں۔ صبح شام دودھ یا دہی یا شربت میں اسپغول کا چھلکا ملا کر استعمال کریں۔ زیادہ گھی اور تیل والی تلی ہوئی اشیاء سے پرہیز کریں۔ چائے، کافی اور کولا ڈرنکس سے پرہیز کریں۔
آنتوں کے السر کے مریضوں کے لیے قدرت نے گوبھی میں شفاء رکھی ہے۔ گوبھی کا جوس دن میں مختلف وقفوں میں پینے سے شفاء ملتی ہے۔
’لال مرچ ”السر لانے کا رسک بڑھاتی ہے۔ ہمارے گھروں میں اس کا بے جا اور فراخ دلانہ استعمال ہوتا ہے۔ اگر آپ السر میں مبتلا ہیں تو آج ہی لال مرچ کو خیر باد کہہ دیجیے۔ سالن میں کالی مرچ استعمال کریں۔ اس کا ذائقہ لال مرچ سے بدرجہا بہتر ہے۔ اس کے علاوہ مرغن غذاؤں سے مناسب پرہیز بھی ضروری ہے۔ بھوک رکھ کر کھانا اور کم کھانا بھی بہت ضروری ہے۔
اسپغول کے چھلکے اور دہی کا باقاعدہ استعمال کریں۔ کھانے پینے میں اعتدال سے کام لیں۔ مرغن اور ثقیل غذاؤں سے پرہیز کریں۔ ہمیشہ بھوک رکھ کر کھانا کھائیں۔ سلاد، ہرے پتے والی سبزیاں، تازہ پھل اور ان کا جوس کثرت سے استعمال کریں۔
معدہ کے السر میں ”اسپرین“ اور اینسیڈز یعنی عام درد کش دوا کبھی بھول کر بھی استعمال نہ کریں۔ اس سے خون بہہ جانے کی وجہ سے موت بھی ہو سکتی ہے۔ سو سب دواؤں کا استعمال ڈاکٹر کے مشورے سے ہونا چاہیے۔
جلدی جلدی کھانے اور مرغن مسالے دار کھانے، اچار، بہت زیادہ نمکین یاسرخ مرچ کی چٹ پٹی چیزوں کا استعمال نہ کریں بلکہ غذائیں ہلکی پھیکی استعمال کریں۔
السر کے مریضوں کو لیموں یا مالٹے اور سوڈا وغیرہ استعمال نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس میں قدرتی تیزابیت موجود ہوتی ہے جس سے السر کی تکلیف بڑھ سکتی ہے۔
دودھ کے استعمال سے السر کے مریضوں کو عارضی راحت پہنچتی ہے۔ دودھ معدے کے تیزابیت کو عارضی طور پر غیر موثر کر دیتا ہے، اس لیے دودھ سے السر کے مریضوں کو آرام محسوس ہوتا ہے لیکن بعد میں دودھ میں موجود کیلشیم کے باعث تیزابیت بڑھ جاتی ہے اور تیزابیت کی پیداوار بڑھ جانے سے تکلیف میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
کھانا کھانے کا ٹائم بنا لیں اور اپنی غذا میں سبز پتوں والی سبزیوں کا عام استعمال کریں۔ سونے اور جاگنے کا وقت متعین کر لیں۔ پیدل چہل قدمی کا وقت نکالیں، ہلکی ورزش کریں۔ مناسب مقدار میں بند گوبھی کھائیں۔ اس کی وجہ سے گیس اور السر دونوں کو قابو کرنے میں مدد ملتی ہے۔
کھجور میں پائے جانے والے نمکیات اور معدنیات معدہ کی بڑھتی ہوئی تیزابیت کو اعتدال پر لاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی وجہ سے معدہ اور آنتوں پر سکون دینے والے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ خاص طور پر وہ افراد جو معدہ کے السر کے مریض ہوں، ان کے لئے کھجور بے حد مفید ہے۔