حرکت میں برکت ہے۔ حرکت زندگی ہے۔ جب تک حرکت ہے تب تک زندگی ہے۔ لیکن جب یہ حرکت نہیں رہتی تو زندگی جامد ہو جاتی ہے، ساکت ہو جاتی ہے۔ خطرات بڑھ جاتے ہیں، رسک میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ بیماریوں کا رسک، امراض کا رسک، موٹاپے کا رسک، ذیابیطس کا رسک، دل کی بیماری کا رسک، کینسر کا رسک، اور بہت سارے خطرات۔
موٹر سائیکل ہو یا کار، ان چیزوں کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ پڑی رہیں تو خراب اور آلودہ ہو جاتی ہیں۔ انسانی جسم بھی ایک پیچیدہ مشین کی مانند ہے اور اگر اسے سرگرم نہ رکھا جائے تو اس میں بھی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ جسمانی اجزاء کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ جسم کمزور ہو یا قوت مدافعت کم ہو تو بیماریاں گھیرنے لگتی ہیں۔
سست طرز زندگی سے نقصان دہ کولیسٹرول کی سطح بڑھ جاتی ہے، جس سے شریانیں اور دل متاثر ہوتے ہیں۔ دل کا دورہ پڑ سکتا ہے یا فالج کا حملہ ہو سکتا ہے۔ موٹاپا کئی امراض کو حملہ آور ہونے کی دعوت دیتا ہے۔ جوڑوں کا درد، ذیابیطس وغیرہ کا خطرہ ورزش نہ کرنے سے بڑھ جاتا ہے۔
سو ان خطرات کو کم کرنے کے لئے کیا کیا جائے؟
اپنا موڈ اچھا رکھنے کے لئے
اپنی تھکن کم کرنے کے لئے
اپنی پیشہ ورانہ کارکردگی بڑھانے کے لئے
اپنے ذہن کی کارکردگی میں اضافے کے لئے۔
اپنی عمر میں برکت کے لئے
حرکت ضروری ہے۔
ورزش لازمی ہے۔
ایکسرسائز واجب ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کے مطابق ورزش نہ کرنے کے سبب دنیا کے ہر چوتھے شخص کو خطرہ ہے۔ پاکستان کی کل آبادی کا پندرہ فیصد حصہ یعنی دو کروڑ سے زیادہ افراد باقاعدہ طور پر موٹاپے کا شکار ہیں۔
ورزش کرنے کے فوائد بے شمار ہیں۔ ورزش سے ہمارے جسم میں متعدد مثبت تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ اس سے ہم چاق و چوبند رہتے ہیں اور بیماریاں ہم سے دور رہتی ہیں۔
جو لوگ باقاعدہ طور پر ورزش کرتے ہیں وہ دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ چست اور صحت مند رہتے ہیں۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم حرکت سے تھک جاتے ہیں۔ لیکن ریسرچ یہ کہتی ہے کہ انسان حرکت نہ کر کے تھک جاتا ہے۔ جی ہاں، تھکاوٹ اور جسمانی توانائی میں کمی کے اسباب کئی ہو سکتے ہیں لیکن اس کا ایک بڑا سبب ورزش نہ کرنا اور آرام دہ طرز زندگی اختیار کرنا ہے۔ اگر روزانہ یا ہفتے میں پانچ دن ورزش کی جائے تو جسم توانا ہونے لگتا ہے جس کے ساتھ کام کرنے کو جی بھی کرنے لگتا ہے۔ ورزش کرنے سے توانائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے پٹھے مضبوط ہوتے ہیں اور جسم میں لچک پیدا ہوتی ہے۔ انسان خود کو تروتازہ محسوس کرتا ہے اور اس کے دل کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔
ورزش دائمی بیماریوں کا خطرہ بھی کم کرتی ہے اور جسمانی ورزش نہ کرنے کے سبب امراض قلب، ذیابیطس اور مختلف نوعیت کے سرطان لاحق ہونے کا خطرہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔
ورزش بلڈ پریشر اور انسانی جسم میں موجود چربی کی سطح کو کم کرنے میں بھی نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ساتھ ہی پیٹ کی چربی کو کم کرنے کا باعث بھی بنتی ہے۔ ورزش کرنے سے وزن کم کرنے یا اسے مناسب رکھنے میں مدد ملتی ہے اور جسم چاق و چوبند اور خوبصورت نظر آنے لگتا ہے۔
یہ بات بھی سامنے آ چکی ہے کہ روزانہ ورزش کرنے سے ذہنی سکون ملتا ہے اور یہ ذہنی تناؤ اور تشویش کو بھی کم کرتی ہے۔ بعض ماہرین کے مطابق ورزش کے اثرات نفسیاتی امراض میں استعمال ہونے والی بعض ادویات کے مساوی ہیں۔ اس طرح منفی خیالات اور چڑچڑے پن سے چھٹکارا ملتا ہے اور زندگی میں مسرت اور شادمانی لوٹ آتی ہے۔
ورزش ہڈیوں اور پٹھوں دونوں کے لیے بہت مفید ہے اور جوڑوں کی بیماریوں اور درد سے بچاؤ کے لئے بھی بہت مفید ہے۔
ورزش سے رنگ روپ بھی نکھرتا ہے۔ اس سے جلد کی صحت اچھی ہوتی ہے اور انسان ہشاش بشاش نظر آتا ہے۔ چہرہ خوبصورت اور نمایاں نظر آنے لگتا ہے۔ علاوہ ازیں دماغی اور ذہنی صحت و یادداشت بہتر ہو جاتی ہے۔ آپ کی نیند بہتر اور آرام دہ ہو جاتی ہے۔ اور تو اور آپ کم عمر اور جوان نظر آتے ہیں، وقت سے پہلے بوڑھے نہیں ہوتے۔
کیلیفورنیا میں ہونے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق سست یا غیر فعال رہنے والی خواتین میں زیادہ تیزی سے بڑھاپا آنے کا خطرہ رہتا ہے اور ایسی خواتین زیادہ ورزش کرنے والی خواتین کے مقابلے میں حیاتیاتی طور پر آٹھ سال زیادہ بڑی ہو جاتی ہیں۔
جو لوگ ورزش نہیں کرتے وہ جلدی تھک جاتے ہیں، ان کے جسم کا گوشت یعنی ان کے پٹھے نرم پڑ جاتے ہیں۔ وہ جلد اعصابی کمزوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کا پیٹ اکثر بڑھ جاتا ہے۔ تھوڑی سی مشقت سے سانس پھولنے لگتا ہے اور کھانا صحیح طرح سے ہضم نہیں ہوتا۔
تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ جیسے جیسے انسان بوڑھا ہوتا جاتا ہے ، اس کی رگیں سخت سے سخت تر ہوتی جاتی ہیں اور اس کی رگوں میں رکاوٹیں پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ رگوں میں سختی کی وجہ سے بھی انسان دل کے عارضے میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ ہلکی پھلکی ورزش نہ صرف پٹھوں کو نرم اور ذہن کو صاف کر دیتی ہے بلکہ یہ رگوں کو زیادہ پھیلنے کے قابل بنا دیتی ہے۔ اس لیے مناسب ورزش کو زندگی کا معمول بنا لینا چاہیے۔
ایک نئی تحقیق کے مطابق دل کی مرکزی شریانوں کو سخت ہونے سے روکنے کے لیے ہفتے میں چار سے پانچ بار ورزش کرنا انتہائی مفید ہے۔
ورزش کتنی طرح کی ہوتی ہے؟
ورزش عام طور پر چار اقسام کی ہوتی ہے۔
ایروبک یا کارڈیو، توازن یا بیلینس، لچک یا فلیکسیبلیٹی، مزاحمتی یا اسٹرینتھ ٹریننگ
کارڈیو میں تیز بھاگنا، تیراکی، ہموار یا پھر اونچائی کی جانب سائیکل چلانا، ٹینس کھیلنا، باغ میں گھاس کاٹنا، ہائیکنگ کرنا، والی بال اور باسکٹ بال، جوگنگ یا تیز دوڑنا، تیز سوئمنگ کرنا، تیز سائیکل چلانا، فٹبال، رگبی، رسی کودنا، ہاکی کھیلنا اور مارشل آرٹس شامل ہیں۔
توازن: جیسے ایک ٹانگ پر کھڑے ہونا
لچک: میں پلینکس یا کمر کی ورزشیں۔
پھر ہے ریزیزٹنس یا مزاحمتی یا اسٹرینتھ ٹریننگ یعنی ایسی ورزش جس سے جسم کے وزن کو اٹھایا جاتا ہو جیسے ڈنٹ پیلنا، اٹھک بیٹھک، باغبانی کرنا، یوگا وغیرہ۔
ماہرین صحت کی جانب سے درمیانی عمر کے لوگوں کے لیے تجویز کیا جاتا ہے کہ وہ پیدل چلتے ہوئے اپنی رفتار قدرے تیز رکھیں کیونکہ زیادہ وقت تک حرکت نہ کرنا صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
ہمارے صحت مند طرز زندگی کے پلان میں روزانہ کم سے کم تیس منٹ کی واک ضروری ہے۔ چاہے اسے آپ ایک وقت میں کریں یا مصروف ہیں تو دس دس منٹ کے تین سیٹ کر لیں۔
چہل قدمی اور جسمانی ورزش کے ذریعے نہ صرف وزن کو بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے بلکہ اس میں خاطر خواہ کمی بھی کی جا سکتی ہے۔
چہل قدمی اور جسمانی ورزش انسانی توانائیوں کو بحال کرتی ہے اور بیماریوں کے خلاف مدافعت کا کام کرتی ہے۔
نیند اور ذہنی سکون میں بہتری کے لئے کون سی ورزش مفید ہے؟
سب سے آسان ہے چہل قدمی یا برسک واک۔ روزانہ کی چہل قدمی سے آپ گہری اور پر سکون نیند حاصل کر سکتے ہیں۔ اچھی اور معیاری نیند کا ایک نسخہ ورزش ہے۔ ورزش کرنے والوں کو ایسا نہ کرنے والوں کی نسبت بہتر نیند آتی ہے۔ یاد رکھیے، جسم اور ذہن کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ جسمانی صحت کا ذہنی صحت پر بھی اثر پڑتا ہے۔ عموماً توانا اور متحرک دماغ صحت مند جسم سے منسلک ہوتا ہے اور ایسے جسم کے لیے ورزش ضروری ہے۔
ورزش یاسیت سے بھی نجات دلانے میں معاون ہوتی ہے۔ یہ جسمانی کے ساتھ ذہنی استعداد کو بڑھاتی ہے۔ ورزش کرنے والے افراد میں دماغی امراض کا خدشہ بہت کم ہوتا ہے۔ ورزش پرمسرت رہنے کا امکان بڑھاتی ہے۔ تاہم جسمانی کے ساتھ ذہنی ورزشیں بھی کرنی چاہئیں۔ لو لگا کر عبادت کرنے کو یا مراقبے کو ہم ذہنی ورزش کہہ سکتے ہیں۔ ورزش کرنے کا سب سے اہم فائدہ انسانی مزاج کو بہتر بناتے ہوئے ڈپریشن، انگزائٹی اور اسٹریس کی سطح کو کم کرنا ہے۔ یہ ذہنی دباؤ اور بے چینی جیسی کیفیات کو کنٹرول کرتی ہے۔
ورزش کے ذریعے انسانی دماغ میں سیروٹونن اور نوری ایپی نفرین نامی ہارمونز کی سطح بڑھانے میں مدد ملتی ہے۔ واضح رہے یہ ہارمونز ڈپریشن کو ختم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ اور ہاں، ورزش اینڈورفن نامی ہارمون کی سطح بڑھانے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے، یہ ہارمون انسانی مزاج کو خوشگوار بنانے اور درد کی سطح کو بھی کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ سو ہر لحاظ سے، حتیٰ کہ میڈیکل اور سائنسی حوالے سے بھی یہ بات اب ثابت ہو چکی ہے کہ حرکت میں برکت ہے۔ سو دیر کس بات کی ہے۔ آئیے آج اور ابھی سے متحرک ہو جائیے۔